خواتین کی صحت: پاکستان میں زیادہ تر حاملہ خواتین آئرن کی کمی یا اینیمیا کا شکار کیوں ہوتی ہیں؟


خواتین

ڈاکٹر صائمہ تبسم کے لیے روزانہ کی طرح آج بھی ایک مصروف دن ہے۔ پاکستان میں صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ کے ایک نواحی علاقے میں اُن کے زچہ و بچہ کلینک پر معائنے کے لیے خواتین اپنی اپنی باری کے انتظار میں ہیں۔

اس دوران حسب وعدہ وہ فون پر بات چیت کے لیے تھوڑا وقت نکال پائیں۔ فون پر ہی گفتگو میں انھوں نے بتایا کے اُن کے پاس روزانہ 50 سے 60 خواتین حمل کے مختلف مراحل پر مشورے اور معائنے کے لیے آتی ہیں۔

بلا تاخیر میں نے ان سے وہی سوال کیا جس کا جواب میری تحقیق کا موضوع بننے والا تھا وہ یہ کہ پاکستان میں حمل کے حوالے سےخواتین کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟

ڈاکٹر صائمہ نے کسی توقف کے بغیر کہا ’آئرن کی کمی، اینیمیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

’حمل کے دوران سنی سنائی باتوں پر ہرگز نہ جائیں‘

لاک ڈاؤن نے میرے اسقاط حمل کو مزید درد ناک تجربہ بنا دیا

پاکستان میں مانع حمل ادویات کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کی حقیقت کیا ہے؟

’روزانہ پچاس، ساٹھ خواتین کا معائنہ کرتی ہوں اور یقین کریں ان میں سے چالیس سے زیادہ آئرن کی کمی کے ساتھ آتی ہیں۔‘

سانگھڑ سے نکل کر لاہور کے علامہ اقبال میڈیکل کالج کے پرنسپل اور معروف ماہر امراض نسواں ڈاکٹر عارف تجمل کے دفتر میں جب یہی سوال میں نے ان کے سامنے دہرایا تھا تو ان کا جواب بھی من و عن یہی تھا۔

خواتین

سانگھڑ کے پسماندہ قصبے سے لے کر پنجاب کے مرکزی شہر لاہور تک اینیمیا کیوں خواتین کا سب سے عام مسئلہ ہے؟

’پاکستان میں ستر فیصد خواتین اینیمیا کا شکار ہوتی ہیں اور اُن میں پڑھی لکھی کھاتے پیتے گھرانوں کی خواتین بھی شامل ہیں۔‘

تو یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ آخر سانگھڑ کے پسماندہ قصبے سے لے کر پنجاب کے مرکزی شہر لاہور تک اینیمیا ہی کیوں خواتین کا سب سے عام مسئلہ ہے؟

ڈاکٹر عارف کا کہنا ہے کہ ایک تو پاکستان میں اینیمیا ویسے ہی عام ہے، دوسری وجہ اس خطے کی عمومی خوراک ہے جس میں مغربی معاشرے کے برعکس آئرن سے بھرپور خوراک کے علاوہ پروٹین بھی کم مقدار میں استعمال ہوتی ہے۔

البتہ سانگھڑ میں ڈاکٹر صائمہ کے لیے ایک اضافی مشکل بھی ہے۔

وہ یہ کہ یہاں خواتین کو سمجھانا مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کمی سے کتنی پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہے اور گولیاں ناکافی ہوں تو انھیں آئرن کے انجیکشن لینا ہوں گے۔

’خواتین انجیکشنزسے گھبراتی ہیں اور اُن کے مردوں کو لگتا ہے کہ میں نے مہنگا علاج بتا دیا ہے۔‘

خواتین

آئرن کی کمی سے پیدا ہونے والا اینیمیا ہے کیا؟

برطانیہ کی این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے مطابق آئرن کی کمی سے منسلک اینیمیا خون میں سرخ خلیوں یا ہیمو گلوبن کا مطلوبہ مقدار سے کم ہونا ہے۔

ہیمو گلوبن خون کے سرخ خلیوں پر موجود ایک پروٹین کا نام ہے جس کا کام پھیپھڑوں سے آکسیجن جذب کر کے اسے جسم کے تمام حصوں تک پہنچانا ہے۔

آئرن، ہیمو گلوبن بنانے کے لیے درکار ضروری اجزا میں شامل ہے۔ ادھر جسم میں آئرن کی کمی ہوئی، ادھر ہیمو گلوبن کی مقدار کم ہو گئی۔

اینیمیا کا پتا کیسے لگایا جائے؟

خون کے ایک ٹیسٹ سے اینیمیا کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔

بہت عام ہونے کے باعث حمل کے ابتدائی مراحل پر ہی اینیمیا کا ٹیسٹ کروا لیا جاتا ہے اور پھر ولادت کے قریب 28ویں ہفتے میں ٹیسٹ دوبارہ کروایا جاتا ہے کیونکہ حمل کی تیسری سہ ماہی میں ہیمو گلوبن کی مقدار پہلے سے مزید کم ہو نے کا احتمال بڑھتا جاتا ہے۔

اینیمیا حمل میں خطرناک کیوں ہے؟

حمل میں آئرن کی کمی کے باعث اس بات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ حمل کا عرصہ مکمل ہونے سے قبل بچہ پیدا ہو جائے۔

’پری ٹرم‘ یا حمل کی مدت مکمل ہونے سے پہلے پیدائش پاکستان جیسے خطوں میں نومولود بچوں کی اموات کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔

خواتین

اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ بچہ آئرن کی کمی یا غیر صحتمند وزن کے ساتھ پیدا ہو، ولادت کے بعد ماں کا دودھ کم بنے یا وہ پیدائش کے عمل کے بعد پوسٹ پارٹم ڈپریشن کا شکار ہو جائے۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر ماں کا ہیمو گلوبن کم ہے تو بچے کی پیدائش کے دوران اگر ان کا تھوڑی مقدار میں بھی خون ضائع ہو جائے تو اس سے ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

خطے میں اینیمیا کے حوالے سے اعداد و شمار

عالمی ادارہ صحت کے مطابق آئرن کی کمی سے پیدا ہونے والا اینیمیا جنوب مشرقی ایشیا اور افریقہ میں سب سے عام ہے۔

اینیمیا کا شکار کل خواتین میں سے نصف کا تعلق برصغیر کے خطے سے ہے۔ تاہم ان میں سے 88 فیصد خواتین حمل کے دوران اس کمی کا شکار ہوتی ہیں۔ اینیمیا کا شکار 45 فیصد خواتین کا تعلق پاکستان سے بتایا گیا ہے۔

پاکستان کی آغا خان یونیورسٹی کی ایک تحقیق نے حیدرآباد شہر میں چند برس پہلے ہونے والے ایک سروے کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق 90 فیصد سے زیادہ حاملہ خواتین آئرن کی کمی کا شکار تھیں۔

ان میں سے 75 فیصد میں معمولی نوعیت کا، 14 فیصد سے زائد میں معتدل درجے کا اور 0.7 فیصد میں سنگین نوعیت کا اینیمیا پایا گیا۔

خواتین

ڈاکٹر صائمہ نے اپنا تجربہ بتاتے ہوئے کہا ان کے پاس زچگی کے لیے ایسی خاتون بھی آ چکی ہیں جن کا ہیمو گلوبن لیول چار گرام فی ڈیسی لیٹر تھا۔

جبکہ چھ سے آٹھ گرام فی ڈیسی لیٹر کے ساتھ آنے والی خواتین لاتعداد ہیں۔ خیال رہے کہ حمل کے دوران 12 ڈیسی لیٹر سے کم ہیمو گلوبن کو غیر صحت مند سمجھا جائے گا۔

حمل میں اینیمیا سے کیسے بچنا ہے؟

ڈاکٹر عارف تجمل نے اس کا حل بتاتے ہوئے کہا کہ حمل کے 16ویں ہفتے کے بعد سے مستند ڈاکٹر سے دوا یا ٹانک تجویز کروا کر استعمال کیا جانا چاہیے اور بہتر ہے کہ آئرن کو کیلشیئم کے ساتھ استعمال نہ کیا جائے۔

ڈاکٹر صائمہ تبسم کے مطابق کھانے والی ادویات کے علاوہ انجیکشن کے ایک کورس سے اضافی آئرن خون میں شامل کی جا سکتی ہے۔ جبکہ دونوں ماہرین اس بات پر بے حد زور دیتے ہیں کہ خواتین بہتر غذا کو معمول کا حصہ بنائیں۔

انڈا، گوشت، خشک پھل، دالیں، خوراک میں شامل کرنا ضروری ہے جبکہ وٹامن سی سے بھر پور خوراک آئرن کے خون میں جذب ہونے کی صلاحیت بہتر بنائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp