لے کے چٹکی میں نمک آنکھ میں بھر کر آنسو


کسی دربار میں ایک مشہور مغنی گیا۔ اس نے باد شاہ کو ایک خوبصورت نغمہ سنایا جو بادشاہ کے کانوں کو بہت بھلا لگا۔ بادشاہ نے داد بھی دی اور کہا چاندی تمہاری۔ مغنی نے خوش ہو کر ایک اور گیت سنایا۔ باد شاہ کے کانوں کو وہ بھی بھلا لگا۔ کہا سونا تمہارا۔ مغنی خوش ہو کر سناتا گیا اور باد شاہ کبھی موتیوں، کبھی ہیروں، کبھی اشرفیوں اور کبھی جاگیروں کا اعلان کرتا گیا۔ دربار سے فارغ ہو کر مغنی گھر پہنچا اور اپنے بیوی بچوں کو بہت خوش ہو کر بتایا کہ میرے گائے گیت اور نغمے باد شاہ کو بہت پسند آئے اور اس نے میرے لئے سونا، چاندی، ہیرے، جواہرات اور جاگیروں کا اعلان کیا۔

بیوی بچے بہت خوش ہوئے۔ کئی دن گزر جانے کے باوجود جب کوئی ایک چیز بھی اس تک نہ پہنچی تو مغنی کو تشویش ہوئی۔ وہ دربار پہنچ گیا اور بادشاہ سے عرض کی کہ میں نے آپ کو کئی خوبصورت گیت اور نغمے سنائے تھے اور آپ نے خوش ہو کر میرے لئے ہیرے، موتی، جواہرات اور جاگیروں کا اعلان کیا تھا۔ حضور کافی دن گزر گئے ہیں لیکن میں اب تک ان تمام انعامات سے محروم ہوں۔ بادشاہ نے مغنی کی بات سن کر کہا کہ اس میں دینے لینے کی بات کہاں سے آ گئی، تم نغمے اور گیت سنا کر میرا دل خوش کرتے رہے اور میں اعلانات کر کے تمہارا دل خوش کرتا رہا۔

کراچی والوں کے لئے وفاق کی جانب سے پیکجوں کے اعلانات کوئی نئی بات نہیں۔ یہ اعلانات بالکل ایسے ہی ہیں جیسے بے نظیر انکم اسکیم کے تحت مجھ سمیت نہ جانے کتنے لاکھ افراد کے نام نکلتے رہتے ہیں۔ میں اگر انعامات میں ملنے والے ساری رقوم کا مالک بنا دیا جاؤں تو پاکستان کی دولت لوٹ کر باہر جائیدادیں بنانے والے سارے کے سارے چور ڈاکو میری دہلیز پر سجدہ ریز نظر آئیں۔

مسلم لیگ نون اور پی پی پی کے ہر دور میں کھرب ہا کھرب کے پیکجوں کے اعلانات کا جو سلسلہ دراز ہوا وہ آج تک ختم ہونے میں نہیں آ رہا اور اگر گزشتہ کل ہونے والے 11 سو ارب روپوں کے پیکج کو اس میں شامل کر لیا جائے اور یہ مان لیا جائے کہ اب تک اعلان کیا جانے والا تمام کا تمام پیسہ کراچی کے ترقیاتی کاموں میں لگ بھی چکا ہے تو لندن، پیرس اور نیویارک جیسے شہر کراچی کی لش پش کے سامنے ٹمٹماٹے دیے بن کر رہ جائیں۔

گزشتہ دو برسوں کے دوران ہی کبھی 100، کبھی 162 اور کبھی 400 ارب کے پیکجوں کے اعلانات نہ صرف کیے جا چکے ہیں بلکہ دعووں کے مطابق یہ سندھ حکومت کے حوالے بھی کیے جا چکے ہیں۔ امید تھی کہ اس مرتبہ کسی اعلان سے قبل یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ وہ 662 ارب روپے جو کراچی کے ترقیاتی کاموں کے لئے اب تک دیے جا چکے ہیں وہ آخر کہاں کہاں خرچ ہوئے لیکن ان کے ذکر کے بغیر پہلے پیکجوں سے دو گنا رقم دینے کا نہ صرف اعلان کر دیا گیا بلکہ عوام کے سارے منتخب نمائندوں، بشمول اپنی ہی پارٹی کے 14 ایم این ایز اور 28 ایم پی ایز پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس پیکج کی ملنے والی رقم کا واحد امین قوم کے محافظوں کو بنا دیا گیا۔

اپنے ہی منتخب نمائندوں پر عدم اعتماد کے بعد کیا اس بات کی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے کہ وہ اپنے اپنے عہدوں اور نشستوں پر موجود رہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا مناسب جواب قوم کو ملنا بہت ہی ضروری ہے ورنہ پھر الیکشن، جمہوریت، مقامی حکومتوں اور بلدیاتی نظام کا تذکرہ ایک فضول، وقت اور قومی دولت کی بربادی کے علاوہ اور کچھ نہیں رہ جائے گا۔

”ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں“ کی مصداق، جو پیکج کراچی کو کراچی کی تباہی و بربادی سے بہت پہلے مل جانا چاہیے تھا وہ کراچی کے تہہ و بالا ہونے کے بعد دیا جانا زود پشیمانوں کی پشیمانی کا ایک کھلا ثبوت ہے۔ کراچی کو جس قسم کی بارشوں کا سامنا ہوا ہے اس کا اعلان بہت پہلے کر دیا گیا تھا اور بار بار کہا جا رہا تھا کہ ”شہری سیلاب“ جیسا خدشہ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی بارش کے تباہ کن اسپل سے پہلے ایک ”وارننگ“ اسپل کراچی پر برسایا تھا جس نے ندی نالوں کی صورت حال کھول کر بیان کر دی تھی۔ اگر یہ پیکج ”وارننگ“ اسپل کے فوراً بعد مل چکا ہوتا تو جو تباہی، تباہ کن اسپل نے کراچی میں مچائی اس سے اگر مکمل نہ بھی بچا جا سکتا تو کم از کم ایک بہت بڑی تباہی کا سامنا بہر حال کراچی کو درپیش نہ ہوتا۔

11 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان بظاہر بہت بڑا اعلان نظر آتا ہے لیکن اگر دیانتدارانہ تجزیہ کیا جائے تو جس پیمانے پر کراچی کو تباہی کا سامنا رہا ہے اس کے آگے یہ خطیر رقم اونٹ کے منہ میں زیرے سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ اس رقم کو اگر صرف ڈیفنس میں مچنے والی تباہی پر ہی خرچ کیا جائے اور اوسطاً ڈیفنس کا ہر گھر صرف 20 کروڑ کا مان لیا جائے تو صرف 550 گھروں کا ہی نقصان پورا کیا جا سکے گا۔ نیا ناظم آباد کے ایک گھر کو اگر صرف 2 کروڑ کا بھی مان لیا جائے اور اس میں ڈوب جانے والے مال و اسباب کا حساب لگا لیا جائے تو یہ رقم زکات کا ڈھائی فیصد بھی نہ بن سکے۔

رہی کراچی کے غریب غربا کی بستیاں جن میں سے کئی صفحہ ہستی سے ہی مٹ چکی ہیں تو وہ تو ہمیشہ سے کیڑے مکوڑے ہی سمجھے گئے ہیں ان کی جانب دیکھ لینے سے ہی حکمرانوں کے دل متلانے لگتے ہیں لیکن جس انداز میں پورے شہر کی سڑکیں، گلیاں، نالے اور سیوریج کا نظام تلپٹ ہو کر رہ گیا ہے، وہ اس پیکج میں کسی بھی صورت درست نہیں ہو سکتا۔

بارشیں گزر جانے، ہر جانب سے ہاؤ ہو کے شور کو تھم جانے کے بعد تڑپتے اور سسکتے کراچی اور کراچی کے لوگوں کا تماشا ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر دیکھنا بقول شاعر اہل کراچی کو یوں لگا جیسے

لے کے چٹکی میں نمک آنکھ میں بھر کر آنسو
اس پہ مچلے ہیں کہ ہم زخم جگر دیکھیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).