آزادی اظہار رائے۔ مذہب کی حساسیت۔ اختلافات فطری ہیں۔ شدت پسندی کا خاتمہ


لڑائیاں کہاں ہوتی ہیں۔ لڑائیاں ہمیشہ حساس معاملات پر ہوتی ہیں۔ ایسے معاملات جن سے حد درجہ ہمارے جذبات وابستہ ہوں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص میری ماں کو گالی دے گا، تو میں بغیر کچھ سوچے سمجھے اس کا گریبان پکڑ لوں گا۔ اور اس کی ایسی کی تیسی پھیر دوں گا۔ ایسا میں کیوں کروں گا۔ ایسا میں اس لیے کروں گا، کیوں کہ میری والدہ میرے لیے بہت خاص ہے۔ میرے اس سے بہت شدید جذبات وابستہ ہیں۔ ایسے جذبات جو میرے سوچنے سمجھنے کی قوت سلب کر لیتے ہیں۔

اور مجھے میری غیرت کا کوئی عجیب سا جاہلانہ معیار دیتے ہیں۔ اور ایسے بے تکی غیرت لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ جذبات کا بھڑک اٹھنا، غصہ پیدا کرتا ہے۔ اور غصے کا پیدا ہونا لڑائی جھگڑوں کو جنم دیتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگوں نے کبھی بھی اپنی نفسیات کا باریکی سے جائزہ نہیں لیا۔ اپنی جذباتیت سے ہمیشہ دور بھاگتے ہیں۔ اور دوسروں کو بھی اپنی حساسیت سے دور ہانکتے رہتے ہیں۔ جب ہم اپنی شخصیت کا باریکی سے جائزہ نہیں لیتے تو وہ معاملات جن سے ہمارے جذبات وابستہ ہوتے ہیں، وہ ہمارے اندر حساسیت کو جنم دیتے ہیں۔

اور جب کوئی معاملہ ہمارے لیے حساس ٹھہرتا ہے، تو وہ ضرور ہمارے لیے مشکلات کا موجب بنتا ہے۔ جس سے یقیناً دوسرے بھی ضرور متاثر ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ہمارے خونی رشتوں کی توہین کرتا ہے، تو اس سے ہمارے عزیز رشتوں کا کیا بگڑتا ہے۔ کچھ بھی نہیں۔ یہ بات ہم نے کبھی سوچی ہی نہیں ہوتی۔ دوسرے نے فقط ہمیں تکلیف دینے واسطے ہمیں گالی دی ہوتی ہے۔ اور ہمیں اس کی گالی دینے پر تکلیف اس لیے ہوتی ہے، کیوں کہ جس رشتے کو گالی دی جاتی ہے، وہ رشتہ ہمارے لیے بہت حساس ہوتا ہے۔

عقائد اور مذہب کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یہ معاملہ حساس اس لیے ہے کیوں کہ ہمارے اس سے بہت شدید جذبات وابستہ ہیں۔ شدید جذبات اس لیے وابستہ ہیں کیوں کہ عقائد کا معاملہ بہت پیچیدہ معاملہ ہے۔ اور ہم نے اپنے عقائد بچپن سے پالے ہوتے ہیں۔ بچپن سے ہی مذہب کو ہمارے اندر ٹھونس دیا جاتا ہے۔ اور بچپن سے ہی ہمارے اندر مذہبی شخصیات کے معیار پہلے سے مقرر ہوتے ہیں۔ اب جو معاملات بچپن سے پہلے سے طے ہوں، بڑھاپے تک وہ ہمارے ساتھ چلے رہتے ہیں۔ بلکہ وہ پہلے سے بھی زیادہ مستحکم ہوئے چلے جاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہی چیزیں حساسیت اختیار کرتی جاتی ہیں۔ جب حساسیت بڑھتی ہے، تو قوت برداشت کم ہو جاتی ہے۔ اس لیے اس پر کھل کر بات کرنا، اور اس پر تنقید سننا ہمارے لیے کافی مشکل ہو جاتا ہے۔

جو معاملات حساس ہوتے ہیں، ریاست ان پر قانون سازی کرتی ہے۔ قانون سازی اس لیے کرتی ہے تاکہ ان معاملات کی حساسیت ریاست کے لیے فسادات کا سبب نہ بنے۔ جب ان معاملات پر سخت قانون سازی ہوتی ہے، تو ان پر کھل کر بات کرنے کا سلسلہ مزید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ لوگ کھل کر ان مسئلوں پر بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔ جس سے ان معاملات کی حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ حساس معاملات سے بھاگنا، اور ان پر قانون سازی کرنا مسائل کا اصل حل نہیں ہے۔ بلکہ ان مسائل کا اصل حل ان مسئلوں کی شدید حساسیت کا خاتمہ ہے۔

فرض کیجیے، اگر کوئی مرد غیرت کو بنیاد بناتے ہوئے اپنی بیٹی کا قتل کرتا ہے، تو اس مسئلے کی اصل جڑ قتل کا ہونا نہیں ہے۔ بلکہ اصل جڑ وہ غیرت ہے، جس کی بنیاد پر اس لڑکی کا بے دردی سے قتل ہوا ہے۔ قاتل کو فقط ڈھک دینا اور سزا دینے اس مسئلے کا اصل حل نہیں ہے۔ بلکہ اصل حل اس غیرت کی حساسیت کا خاتمہ ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ان لوگوں کے لیے غیرت کا مسئلہ حساس کیوں ہے۔ غیرت کا مسئلہ ان مردوں میں حساسیت کیسے اختیار کرتا ہے۔

ایسی حساسیت جو انھیں بہادر بنا دیتی ہے۔ اور اتنا نڈر کرتی ہے وہ اپنی پیدا کردہ لڑکی کا ہی خاتمہ کر دیتے ہیں، جو انھیں سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ اور اس سنگین جرم پر بجائے شرمندگی کے فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے جب تک غیرت کا مفہوم صحیح سے واضح نہیں ہو گا تو غیرت کی حساسیت کا معاملہ بھی ختم نہیں ہو گا۔ اور ایسے ہی غیرت کی بنیاد پر عورتوں کا قتل جاری رہے گا۔ جو مرد غیرت غیرت کرتے ہیں، ان سے بندہ جا کے یہ تو پوچھے کہ بتاؤ غیرت ہے کیا، جس پر تم اتنے تپے بیٹھے ہو۔ یقین جانیے وہ غیرت کی توضیح نہیں کر پائے گا۔

بالکل اسی طرح عقائد پر قانون سازی مسائل کا حل نہیں ہے۔ بلکہ اصل حل عقائد کی بلا سوچے سمجھے پیدا کی گئی شدید حساسیت کا خاتمہ ہے جو گزشتہ چند دہائیوں میں ہمارے معاشرے میں در آئی ہے۔ اور یہ حساسیت فقط عقائد پر منطقی بحث سے ہی ختم ہو گی۔ جب کہ ہماری یونی ورسٹیوں میں ایسی گفتگو پر سخت پابندی ہے۔ ریاست اپنے عقائد مضامین کی شکل میں پہلی جماعت سے یونی ورسٹی لیول تک بچوں میں ٹھونستی تو ہے، مگر ان پر کھل کر ہمیں بات نہیں کرنے دیتی۔ یہی سبب ہے کہ ان معاملات کی حساسیت ابھی تک برقرار ہے۔ اور لوگوں میں ایک دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ نہیں ہے۔

اور اختلافات کی سخت حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ یقین جانیے، ہماری ترقی فقط سائنسی کلچر میں ہے۔ کیوں کہ سائنسی کلچر ہمیں دلیل سے بات کرنا سکھاتا ہے۔ اور حساس معاملات پر بحث کرنے میں ہماری شخصیت کو لچکدار کرتا ہے۔ خدارا، لوگوں کو ان کے عقائد کے معاملات پر جیلوں میں نہ ڈالیں۔ انھیں کھل کر بات کرنے دیں۔ جب تک کھل کے بات نہیں ہو گی، سارے مسائل یوں ہی باقی رہیں گے۔ اور ان معاملات کی حساسیت مزید بڑھتی جائے گی۔

خدارا، لوگوں کو سوالات کرنے دیں۔ ان کے منہ بند نہ کریں۔ پہلے بھی آزادی اظہار رائے پر بہت قدغن ہے۔ جس کے سبب ہمارا بہت سارا سماج گھٹن کا شکار ہے۔ ہمیں یہ بات اب اچھے سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آزادی اظہار رائے ہمارا بنیادی انسانی حق ہے۔ اور لوگوں کے درمیان مختلف معاملات پر اختلافات کا ہونا فطری ہے۔ آزاد تقریر بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ اس سے تمام حقوق کے حصول میں تقویت ملتی ہے۔ معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے اپنی رائے بیان کرنے اور آزادانہ طور پر بولنے کی صلاحیت بہت ضروری ہے۔ آزاد تقریر کا مطلب متعصبانہ خیالات کو چیلنج کرنا ہے۔ ان سے اختلاف کرنا ہے۔ اور شدت پسندی کی مخالفت کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).