ساجد گوندل کی واپسی، لاپتہ افراد اور توہین مذہب قوانین کا جبر


جمعرات کو اسلام آباد سے لاپتہ ہونے والے سیکیورٹریز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ساجد گوندل واپس گھر پہنچ گئے ہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی بازیابی کے لئے جب چیف جسٹس اطہر من اللہ دارالحکومت سے ایک شخص کی گمشدگی کے بارے میں وفاقی سیکرٹری داخلہ اور اسلام آباد پولیس کے سربراہ سے استفسار کر رہے تھے تو ان کے پاس کسی سوال کا جواب نہیں تھا۔ آج وزیر اعظم کے نوٹس لینے اور ساجد گوندل کی بازیابی کے لئے کابینہ کی کمیٹی قائم کرنے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی وہ اپنے گھر پہنچ گئے۔

اس صورت حال میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک میں اچانک غائب کردیے جانے والے کسی بھی شخص کی بازیابی کے لئے وزیر اعظم کو نوٹس لینا پڑے گاا ور کابینہ کی کمیٹی بنانا پڑے گی؟ ایسی صورت میں تو ملک میں گزشتہ چند برس کے دوران لاپتہ کئے گئے ہزاروں لوگوں کی بازیابی کے لئے وزیر اعظم کو ہزاروں کمیٹیاں بنانا پڑیں گی۔ موجودہ صورت حال میں یہ بات تو واضح ہے کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے قائم بااختیار کمیشن اپنے مقصد میں بری طرح ناکام ہے۔ اس کمیشن نے جمعہ کو ساجد گوندل کی بازیابی کے لئے اقدام کا اعلان کیا تھا تاہم وزیر اعظم کے حکم پر ہی انہیں گھر آنا نصیب ہؤا۔ وزیر اعظم کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ساجد گوندل کے اہل خانہ اور دوستوں کو انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ ملک کر سوشل میڈیا پر مہم چلانا پڑی اور اسلام آباد پریس کلب کے باہر مظاہرہ کرنا پڑا تھا۔ یہ لوگ وزیر اعظم ہاؤس کے باہر بھی احتجاج کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

چند ہفتے قبل اسلام آباد سے ہی صحافی مطیع اللہ جان کو بھی دن دہاڑے اغوا کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم الجزیرہ کو دیے گئے انٹرویو میں اس اغوا کو چند گھنٹے کا ’مبینہ اغوا ‘ قرار دے چکے ہیں۔ یعنی مطیع اللہ جان کو دن دہاڑے اٹھانے کے واقعہ کو عمران خان نے اس انٹرویو میں معمول کا واقعہ بتانے اور اس بارے میں شبہ پیدا کرنے کی اپنی سی کوشش ضرور کی تھی۔ مطیع اللہ جان شاید خوش قسمت تھے کہ ان کے اغوا کی ویڈیو سامنے آگئی جس میں ان عناصر کی شناخت بھی ممکن تھی جو انہیں زبردستی اٹھا کر پولیس کی گاڑی میں ڈال رہے تھے۔ وہ چونکہ ممتاز اور جانے پہچانے صحافی ہیں، اس لئے اس اغوا کے بعد فوری طور سے سوشل میڈیا پر احتجاج اور مذمت کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اس کے باوجود یہ بات نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ مطیع اللہ جان کے اغوا کے دو ماہ بعد بھی نہ تو اس اغوا کی وجوہات سامنے آسکی ہیں اور نہ ہی ذمہ داروں کا تعین ہوسکا ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ اغوا کے اس واقعہ کی تحقیقات کرنے اور رپورٹ جمع کروانے کا حکم دے چکی ہے۔

وزیر اطلاعات شبلی فراز نے ساجد گوندل کی رہائی سے قبل آج صبح کابینہ اجلاس کے بارے میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اسلام آباد بالکل محفوظ ہے۔ اس کے ثبوت میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ خود اگرچہ وزیر ہیں لیکن وہ رات گئے بھی خود گاڑی چلا کر کہیں بھی چلے جاتے ہیں۔ وہ تو محفوظ رہتے ہیں۔ البتہ ساجد گوندل کے اغوا پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے اہل خاندان سے ہمدردی کااظہار کیا۔ سوال ہے کہ کیا حکومت کسی جرم کے بعد صرف اظہار افسوس سے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو سکتی ہے؟ خاص طور سے جس حکومت کا سربراہ ایک ایسا شخص ہو جو اس منصب پر فائز ہونے کے دو سال کے بعد بھی کسی ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے یہ دعویٰ کرتا ہو کہ سیاست سے لے کر معیشت تک ہر معاملہ صحیح سمت میں جارہا ہے۔ مدینہ ریاست کی بنیاد رکھی جا چکی ہے اور پاکستانی عوام کو جلد ہی اس کے ثمرات ملنا شروع ہوجائیں گے۔ معاشی مفادات اور سیاسی استحکام کی بحث کو اگر بھلا بھی دیا جائے تو بھی وزیر اعظم سے یہ تو پوچھا جا سکتا ہے کہ مدینہ ریاست کو آئیڈیل ماننے والا کوئی وزیر اعظم کیا مجرموں کو پکڑے بغیر چین کی نیند سو سکتا ہے؟

ساجد گوندل اپنے گھر پہنچ گئے۔ ان کی والدہ، اہلیہ، بچے اور اہل خاندان خوش ہوں گے اور حکومت مطمئن ہے اب اس معاملہ پر مزید سوال نہیں اٹھیں گے۔ احتجاج اور سوشل میڈیا پر اٹھنے والا طوفان تھم جائے گا۔ کیا 22 کروڑ کی آبادی کے ملک میں یہی انصاف کی معراج ہے جسے نافذ کرنے کے لئے عمران خان اور ان کی حکومت کسی کو ’این آر او نہ دینے‘ کا اعلان کرتی رہتی ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم جاوید باجوہ کے اثاثوں کے بارے میں اٹھنے والے سوالوں کے باوجود ایسا اعلان کرتے ہوئے کسی قسم کی سیاسی خفت یا انفرادی شرمندگی محسوس نہیں کی جارہی۔ وزیر اعظم نے عاصم باجوہ کا استعفی مسترد کرتے ہوئے اثاثوں کے بارے میں ان کے جواب کو مناسب اور ٹھوس قرار دیا تھا۔ حالانکہ عاصم باجوہ نے جو جواب جاری کیا ہے، دراصل وہی خاندانی اثاثوں اور امریکہ میں باجوہ فیملی کے کاروبار کے متعلق شبہات کی اصل وجہ بنا ہے۔ احمد نورانی کی رپورٹ اور معلومات پر غور کرنے کی بجائے اگر عاصم باجوہ کے جواب میں موجود ’حقائق‘ کا غیر جانبدارانہ جائزہ کیا جائے تو بہت سے پہلوؤں سے پردہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ البتہ وزیر اعظم کو کسی تصدیق و تحقیق کے بغیر یہ جواب مناسب اور درست لگتا ہے اسی لئے عاصم باجوہ کا استعفیٰ نامنظور کردیا گیا۔ اب ساجد گوندل وزیر اعظم کے حکم پر گھر واپس آگئے ہیں، اس لئے اس جرم اور اس کے ذمہ داروں کے بارے میں سوال اٹھانے کی بجائے اس خوشی کا اظہار ہونا چاہئے کہ ایک افسر بخیریت واپس آگیا۔ کیا یہی قانون کی حکمرانی ہے؟

نامعلوم ریاستی عناصر کی طرف سے شہریوں کو لاپتہ کرنا اور قومی مفاد کا دشمن سمجھ کر تشدد، ظلم و جبر حتی کہ قتل جیسے جرم کا نشانہ بنانا پاکستان میں معمول کا واقعہ بن چکا ہے۔ محض چند لوگوں کے خلاف سرزد ہونے والے اس جرم کو اخبارات یا سوشل میڈیا کے ذریعے بھرپور توجہ ملتی ہے اور اغوا کنندگان کو پسپائی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ لیکن کبھی ان عناصر کا کوئی چہرہ سامنے نہیں آتا۔ کوئی بھی جمہوری حکومت  ایک آئینی انتظام میں اس قسم کے غیر قانونی اقدامات کی اجازت نہیں دے سکتی کیوں کہ یہ عمل ملک کے قانون اور عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا سنگین اظہار ہے۔

یوں تو ملکی عدلیہ متعدد بار افراد کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس لے چکی ہے لیکن کیا اب وقت نہیں آگیا کہ وہ ایسے عناصر اور ان کی سرپرستی کرنے والے حکمرانوں کو بھی توہین عدلیہ کا مرتکب قرار دے۔ پوچھا جائے کہ شہریوں کو اٹھانے والے کون لوگ ہیں ؟ کسی شہری کے بارے میں اگر کسی بھی غیر قانونی حرکت کا شبہ ہے تو اسے قانون کے تحت مروج نظام میں سزا کیوں نہیں دلائی جاتی۔ اپنی مثال دیتے ہوئے دارالحکومت اور ملک میں امن و مان کی اعلیٰ صورت حال کا ثبوت دینے والے وزیر اطلاعات سے پوچھا جائے کہ کیا غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کے خلاف قانون ہاتھ میں لینے والے عناصر اس ملک اور آئین کے وفادار قرار دیے جا سکتے ہیں؟ حکومت اس طریقہ کو اگر غلط سمجھتی ہے تو اسے فوری طور سے مطیع اللہ جان اور ساجد گوندل کو اغوا کرنے والے لوگوں کو سامنے لانا چاہئے اور اگلے مرحلے میں تمام لاپتہ افراد کو رہائی دلانے کے لئے قانون سازی کرنے کے علاوہ اور سیاسی اتفاق رائے کے ذریعے مؤثر اقدام کرنا چاہئے۔

جب اسلام آباد میں ساجد گوندل کے اغوا پر احتجاج ہورہا تھا اور ملک بھر کے لوگ اس بات پر پریشان تھے کہ اگر کوئی اعلیٰ سرکاری افسر بھی دارالحکومت میں غیر محفوظ ہے تو عام شہری خود کو کیسے محفوظ سمجھے۔ اسی دوران اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے پاکستان میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے سرگرم لوگوں کے خلاف تشدد اور جرائم کی نشاندہی کی ہے اور حکومت سے اصلاح احوال کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’توہین مذہب قوانین فنکاروں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف استعمال کئے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشرہ کے کمزور طبقات نشانے پر ہیں۔ ایسے اکثر معاملات میں نہ مجرموں کو تلاش کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان پر مقدمات چلائے جاتے ہیں۔ ہم نے حکومت سے براہ راست رابطہ کرکے صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی حفاظت یقینی بنانے کا تقاضا کیا ہے‘۔ اقوام متحدہ نے پاکستانی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ دو ٹوک الفاظ میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کرنے یا اس کے لئے اکسانے کی مذمت کرے۔ ملک میں توہین مذہب کے قوانین کو ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لئےاستعمال اور تشدد میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔

نامعلوم وجوہ کی بنا پر لوگوں کو اٹھانے اور طویل عرصہ تک غائب رکھنے یا قتل کرنے کے واقعات کی طرح مذہب کے نام پر الزام تراشی اور اس مقصد کے لئے توہین مذہب قوانین کا استعمال خاص طور سے تشویش اور پریشانی کا سبب ہے۔ ملک میں ضیا آمریت میں نافذ کئے گئے توہین مذہب قوانین متعدد انسانی المیوں کا سبب بنے ہیں اور تمام عالمی تنظیمیں اور ادارے ان قوانین کی حکمت و ضرورت پر سوال اٹھا چکے ہیں۔ پاکستان میں ایسا سیاسی ماحول بنا دیا گیا ہے کہ ان قوانین پر سوال اٹھانا بھی ’توہین مذہب‘ شمار کیا جانے لگا ہے لیکن ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے اور دنیا میں پاکستان کی مہذب اور انسان دوست شبیہ سامنے لانے کے لئے ان قوانین پر مباحث اور ضروری ترامیم وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali