موجودہ حکومت کے عوامی فلاحی منصوبے اور انتظامیہ


موجودہ حکومت عوامی مسائل کے حل کے لئے کوشاں ہے کہ وہ ترقیاتی منصوبوں پر تیزی سے عمل پیرا ہے۔ نئے پراجیکٹس بھی بنائے جا رہے ہیں سکولوں کی اپ گریڈیشن سے لے کر ہسپتالوں کی تعمیر نو تک ہو رہی ہے۔ صنعتی زون قائم کیے جا رہے ہیں۔ پولیس کے محکمے کو عوام دوست بنانے کی حکمت عملی طے کی جا چکی ہے کچھ نئے تھانوں اور کچھ ماڈل تھانوں کو بھی متعارف کرایا جا رہا ہے جنوبی پنجاب پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ احساس محرومی کو ختم کرنے کے لئے پروگرام ترتیب دے دیا گیا ہے۔

قرضوں کا اجرا آسان کیا جا رہا ہے۔ محنت کشوں کوبھی ممکنہ حد تک سہولتیں فراہم کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ نوجوانوں کو روزگار دینے کے لئے انہیں مختلف سرکاری محکموں میں کھپایا جا رہا ہے۔ نجی طور سے بھی روزگار کے حصول کو ممکن بنایا گیا ہے انہیں ذاتی کاروبار کے لئے بھی قرضے کی سہولت دے دی گئی ہے اس طرح کی بہت سی سکیمیں سامنے آ رہی ہیں جس سے ملک کا ہر شہری استفادہ کر سکے گا لہذا یہ جو حزب اختلاف کی طرف سے منفی پراپیگنذا کیا جا رہا ہے کہ وہ ناکام ہو چکی ہے سمجھ سے باہر ہے اصل میں ناکامی اسے مافیاز پر قابو نہ پانے میں ہوئی ہے۔

مافیاز اسے کیوں ناکام دیکھنا چاہتے ہیں اس کا جواب یہ ہوگا کہ پچھلے حکمرانوں نے انہیں اپنا ایک بازو بنا رکھا تھا لہذا اسے انہیں سہولیات دے کر مضبوط وتوانا رکھتے وہ عوام کی جمع پونجی پر جو ہاتھ صاف کرتے اس میں سے ان کا بھی حصہ ہوتا لہذا اب وہ قانون کی نگاہ میں آئے ہیں تو انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لہذا وہ اپنے ”اختیارات“ استعمال کر رہے ہیں اور حکومت کو بدنام کرنے میں مصروف ہیں مگر حکومت ان کے ساتھ کیوں سخت برتاؤ نہیں کر رہی اس کی ایک وجہ یہ ہے میں اپنے پچھلے کالم میں بھی عرض کر چکا ہوں کہ وہ زیادہ سختی اس لئے نہیں کر رہی کہ کہیں وہ نظام حیات کو نہ لرزا دیں لہذا وہ بڑی احتیاط سے ان کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے۔

بہرحال جیسا کہ ہم اوپر عرض کر چکے ہیں کہ موجودہ حکومت عوام کو سہولتیں اور آسانیاں دینے کی راہ پر گامزن ہے مگر بات وہی کہ جب تک وہ انتظامی مسلے پر توجہ مرکوز نہیں کرتی اور مافیاز کے ساتھ نرم رویہ اپناتی ہے (جس کا وہ الٹ مطلب لے رہے ہیں کہ بس حکومت میں دم خم نہیں رہا یوں ان کے حوصلے بلند سے بلند ہوتے جا رہے ہیں) تو وہ کامیاب نہیں ہو سکتی جس سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے لئے حزب اختلاف متحرک ہو چکی ہے اگر وہ اپنی کامیابی کے نزدیک پہنچ جاتی ہے تو پھر حکومت کو گومگوں کی کیفیت سے باہر آنا پڑے تاکہ عوام میں یہ تاثر پھیل جائے کہ وہ تو ان کے لئے بہت کچھ کرنا چاہ رہی ہے مگر اس کا راستہ مسدود کیا جا رہا پے یعنی وہ عوامی حمایت حاصل کرکے ان سب کو غیر فعال کر سکتی ہے ویسے ہمیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ملکی ادارے اپنے فرائض سے کیوں بے خبر ہیں انہیں نہیں چاہیے کہ وہ قانون پر عمل درامد کرائیں

اس وقت حالات معمول کے مطابق نہیں چاروں طرف خطرات منڈلا رہے ہیں معیشت متزلزل ہے جن لوگوں کے منہ کو شوربا لگا ہوا تھا وہ بھی نالاں ہیں اس کامطلب یہ نہیں کہ وہ اب شوربا نہیں چکھ رہے وہ ایسا کر رہے ہیں مگر ان پر تھوڑا سا دباؤ بھی ہے کیونکہ نیب نے بڑے بڑوں کو طلب کر رکھا ہے اور ان کو بھی جو خطا کار ہیں اپنے پاس بلانے کا اشارہ کر رہا ہے خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ محض گھسیٹا گھساٹی ہے۔ ہونا ہوانا کچھ نہیں۔ فرض کیا ایسا ہی ہے تو پھر حکومت کہاں کھڑی ہے وہ صرف جھنڈے والی گاڑیوں میں محو سفر رہنا چاہتی ہے مگر نہیں وزیر اعلی پنجاب نے کالم نگاروں سے ایک ملاقات جو ان کی طرف سے دیے گئے ایک کھانے پر ہوئی میں بتایا کہ وہ عوام کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔ ان کے لئے سہولتوں کے ڈھیر لگانے والے ہیں اس کے لئے باقاعدہ کام کا آغاز ہو چکا ہے انہوں نے مختلف النوع منصوبوں بارے تفصیلاً بتایا مگر ہم اپنے سوال کو پھر دہراتے ہیں کہ وہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوں گے جب تک لا اینڈ آرڈر کو یقینی نہیں بناتے تھانہ اور پٹوار کلچر سے لے کر قبضہ گیروں تک پر اپنی گرفت مضبوط نہیں بنا لیتے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ منصوبوں کے اجرا اور ان پر عمل درآمد کروانے کے ساتھ نجی وغیر نجی سمیت تمام اداروں کونظم وضبط کا پابند کریں خصوصاً بیورو کریسی کو جس نے عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھ لیا ہے اور خود کو اعلی مخلوق تصور کرتے ہوئےان پر ستموں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے یہ وہ کام کرتی ہے جس سے عوام کو اذیت پہنچتی ہو لہذا اسے عوام بیزار نہیں عوام دوست بناے کی کوشش کی جائے اس میں انہیں کامیابی مل سکتی ہے کیونکہ عدلیہ اور نیب انصاف کا علم بلند کر چکے ہیں۔

بہر کیف عوام سے بھی گزارش ہے کہ اب جب وطن عزیز معاشی اعتبار سے کمزور ہے تو انہیں بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے پر کسی تشویش میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ کڑے وقت آتے ہی اور گزر جاتے ہیں لہذا کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کچھ آسائشیں میسر آسکتی ہیں بجلی وگیس سستی داموں دینے کا حکومت کا مصمم ارادہ ہے دیگر اشیائے ضروریات بھی وافر مقدار و تعداد میں نظر آئیں گی اور سستی دستیاب ہوں گی مگر ہم پھر یہ کہتے ہیں کہ غریب عوام کو ذخیرہ اندوزوں ’رشوت خوروں‘ ٹیکس نہ دینے والوں قبضہ گیروں اور مہنگائی کرنے والوں سے بچایا جائے انتظامیہ کو مزید اختیارات دے کر آزمایا جائے بصورت دیگر اس سے معذرت کر لی جائے کہ وہ گھر پے آرام کرے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).