غالب۔ سائنس کی روشنی میں


فنکار اپنی ذات کے بحر بیکراں میں ڈوب کر ابھرتا ہے تو فن کے موتیوں سے دامن بھر لاتا ہے۔ جنہیں الفاظ کی لڑی میں پرو کر شعر یا نثر پارے کا روپ بخش دیتا ہے۔ ابن خلدون مراحل تخلیق کو یوں بیان کرتے ہیں ”انسانی روح کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایسے لمحے کے لیے جو پلک جھپکنے میں گزر جاتا ہے انسانی فطرت سے دست کش ہو کر ملکوتی فطرت کا لباس پہن لے اور اس پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچانے کی سعی کرتی ہے۔ جو اسے ملائک کی سر زمیں سے عطا ہوتا ہے“ ۔

فنکار اس قدرتی عمل سے گزر کر ایسے حقائق بھی منظر پر لے آتا ہے جو عام مشاہدے سے بالا تر ہوتے ہیں۔ اس میں اس کی وجدانی صلاحیتوں کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ غالب اردو کے ان شاعروں میں پیش پیش نظر آتے ہیں جن کی تیز وجدانی حس ان کی عالم ملائک تک رسائی میں معاون رہی اور مغربی علوم اور سائنسی تحقیقات سے نا واقفیت کے باوجود مرزا پر آفاقی مناظر کے انکشاف کا باعث تھی۔ غالب کے پیغمبرانہ وجدان کا پتا ہمیں ان اشعار سے ملتا ہے جو جدید سائنسی حقائق کی روشنی میں سچ ثابت ہو رہے ہیں۔

احساس تو یہ ہوتا ہے کہ مرزا نے پیش گوئیاں کی ہیں جن کا ثبوت گردش روزگار فراہم کر رہی ہے اور آج سو سال بعد ہمیں ان کے سائنسی انداز فکر کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔ ان کے کلام میں ایسے اشعار جا بجا ملتے ہیں جو صرف سائنسی حقائق کی روشنی میں غیر مبہم اور قرین قیاس ہیں وگرنہ اسے غالب کی مشکل پسندی یا رجعت پسندی کا نام دیا جا سکتا ہے جو اصل میں مستقبل پسندی تھی جس کا احساس خود انہیں بھی تھا

مشکل ہے زبس کلام میرا
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل

وہ غزل کی تنگ دامانی اور غیب سے مضامین خیال میں آنے کا اعتراف بھی کرتے ہیں
بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے
آتے ہیں غیب سے مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے

آئیے اب ذرا شاعر کے کلام کو سائنس کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اس سے ثابت ہو جائے گا کہ غالب شاعر ہی نہیں تھے۔ سائنس دان بھی تھے جو طویل ریاضیاتی ترکیبات اور تشریحات کی بجائے حقائق کو دو مصرعوں میں سمیٹنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ 1864 ء میں کارنٹ نے تھرموڈائنامکس حرکیات تپش کی بنیاد رکھی ہم جس کی بدولت فطری ”اینٹروپی” کے اصول سے متعارف ہوئے۔ اس پراسرار اصول کے مطابق کسی جسم کی تپش بڑھ جانے پر اس کے سالمات کی حرکت میں ربط نہیں رہتا ان کا نظم و ضبط کم ہو جاتا ہے تو ہم کہتے ہیں ناکارگی بڑھ گئی ہے اور اگر نظم و ضبط زیادہ ہو تو ناکارگی کم ہو گی۔

ناکارگی کی زیادتی سے کارآمد توانائی گھٹ جاتی ہے۔ حرکیات تپش کے دوسرے قانون کے مطابق قدرتی نظام کا ضبط کم ہو رہا ہے ناکارگی بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں تمام اجسام اپنی حرارت جھاڑ رہے ہیں جس کا عروج کائنات کی توانائی کا مکمل ضیاع ہو گا۔ ہر جگہ درجہ حرارت یکساں ہونے کی وجہ سے زندگی ناممکن ہو جائے گی اور ساز حیات خاموش ہو جائے گا۔

نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیے
بے صدا ہو جائے گا یہ ساز ہستی ایک دن
غالب کا ایک شعر ہے
ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام
مہر گردوں ہے چراغ راہ گزار باد یاں

اس سے سورج کی زوال پذیر حالت واضح ہو گئی ہے۔ جو جدید سائنسی اندازے کے مطابق پچیس کروڑ ٹن مادہ فی منٹ اشعاع کی شکل میں بکھیر رہا ہے۔ اس طرح دوسرے سیارے بھی اپنی توانائی ضائع کر رہے ہیں۔

نیوٹن نے مطلق سکون کا خواب دیکھا تھا لیکن آئن سٹائن کے نظریے نے اسے چکنا چور کر دیا اور یہ بات ہر شخص پر واضح ہو گئی کہ سورج وچاند ہوں، سیارے ہوں یا ایٹم کے سینہ میں پوشیدہ انتہائی لطیف ذرات ہوں سبھی گردش مدام کے اسیر ہیں۔ مطلق سکون کی کوئی حقیقت نہیں۔

مانع دشت نور دی کوئی تدبیر نہیں
ایک چکر ہے میرے پاؤں میں زنجیر نہیں
کشاکش ہائے ہستی سے کرے کیا سعی آزادی
ہوئی زنجیر موج آب کو فرصت روانی کی

آئن سٹائن نے نیوٹن کا مطلق مکان کا بت بھی توڑ دیا اور ثابت کر دیا کہ کائنات میں کوئی مقام مطلق نہیں تمام اجسام ایک دوسرے کی اضافت سے مسلسل گردش میں ہیں۔ کائنات محدود اور بے کراں ہے ایک کرہ یا بیضہ کی طرح جو محدود تو ہوتا ہے لیکن اس کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا۔

کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
جس میں کہ ایک بیضہ مور آسمان ہے

انسان صدیوں مہ وپرویں کے عالم کبری کے مشاہدے میں محو رہا لیکن انیسوی صدی کے آخر میں اس نے کائنات صغری کا سراغ بھی پا لیا جو ایٹم کے سینہ میں مستور ہے۔ سائنس نے یہ بات ثابت کر دی کہ مادہ کی اصل برق کے ننھے ننھے شرارے ہیں جن سے ایٹم بنتا ہے۔ ایٹم کے جزوی ذرات الیکٹران ، نیوکلیس کے گرد گردش مدام میں رہتے ہیں اور ایک ننھا سا نظام شمسی تشکیل کرتے ہیں۔

ہے تجلی تری سامان وجود
ذرہ بے پر تو خورشید نہیں
ہے کائنات کو حرکت تیرے ذوق سے
پر تو سے آفتاب کے ذرے میں جان ہے

مادہ کی قلیل ترین مقدار میں ایٹموں کا ایک وسیع جہاں آباد ہوتا ہے کیونکہ چار کروڑ ایٹموں کو برابر رکھا جائے تو ان کی مجموعی لمبائی ایک انچ کے برابر ہو گی۔ کاغذ کی پن کے سرے پر ایک قطار میں تقریباً بیس کروڑ ایٹم رکھے جا سکتے ہیں۔ اس لیے مٹھی بھر خاک کو صحرا کہیں گے۔

سر پر ہجوم درد غریبی سے ڈالیے
ایک مشت خاک کہ صحرا کہیں جسے

فن جراحی کے ماہرین دل بدلنے پر قدرت پا چکے ہیں اور ماہرین فلکیات چاند پر بستیاں آباد کرنے والے ہیں یوں مرزا کے یہ اشعار بے معنی نہیں رہتے۔

تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم، کہ اٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے جا کر ، دل و جاں اور
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے ہیں
عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکاں اپنا

جدید سائنس کی تازہ ترین دریافت ہے کہ بعض سیارے آوازیں پیدا کرتے رہتے ہیں ان پر تحقیق ہو رہی ہے۔ غالب نے اس حقیقت کا انکشاف بھی کر دیا تھا

پیکر عشاق، ساز طالع نا ساز ہے
نالہ گویا گردش سیارہ کی آواز ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).