حق مہر اور معاشرتی رویہ


جب اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا تو ان کی رفاقت کے لیے ان ہی کی پسلی سے بی بی حوا کو بھی پیدا کیا اللہ نے مرد اور عورت کا ساتھ جوڑوں کی شکل میں ازل سے رکھا ہے اور ابد تک جاری و ساری رہے گا۔ اسلام میں نکاح کو ہر طریقہ سے اہمیت حاصل ہے نبی آخرزماں حضرت محمد مصطفی ﷺنے فرمایا نکاح کرنا میری سنت ہے۔ اس کے ساتھ فرمایا جب کوئی شخص جوانی میں نکاح کرتا ہے تو شیطان کہتا ہے ہائے صد آفسوس اس نے اپنا آدھا دین بچالیا۔ نکاح زنا جیسے ناقابل معافی کبیرہ گناہ سے بچالیتا ہے جو انسان زنا کے دلدل میں پھنس جاتا ہے اس کے لیے حلال جیسی نعمت کی طرف آنا اور اس کی قدر کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا ہے۔

نکاح کے بھی کچھ قواعد و ضوابط اللہ کی جانب سے طے کیے گئے ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے پھر ہی نکاح جا سکتا ہے حضور اکرم ﷺنے فرمایا ولی، حق مہر اور دو عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ اس ایک قول سے جو ایک بات واضح ہو رہی ہے وہ ہے کہ حق مہر کہ بغیر نکاح ممکن نہیں مطلب حق مہر کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ خطبہ نکاح اور مرد و عورت کا ایجاب و قبول بھی اہمیت کے حامل ہیں۔

آج میں جس حوالے سے بات کرنے والی ہوں وہ ہے حق مہر کی ادائیگی اور ہمارا معاشرتی رویہ ہے حق مہر کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے

1) حق مہر موجل

اس حق مہر کی ادائیگی نکاح کے بعد فی الفور کردی جاتی ہے اور یوں بھی ہوتا ہے کہ زیور کی صورت میں دلہن کو کردی جاتی ہے جس کے بارے میں نکاح خواں نکاح پڑھاتے وقت ہی واضح کردیتے ہیں۔

2) حق مہر مواجل
اس حق مہر کی ادائیگی طلاق یا علیحدگی کی صورت میں کی جاتی ہے۔

عمومی طور پر ہر لڑکے والوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ حق مہر مواجل اور کم ازکم لکھوایا جائے اور اگر لڑکی والے موجل حق مہر کا مطالبہ کردیں تو اس ناروا رویہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے گویا کوئی گناہ کر دیا ہو حتی کہ وہ تو ان ہی کی آسانی چاہتے ہیں کیونکہ اگر ان کے بیٹے کا نکاح ان کی بیٹی سے ہوگیا تو اس پر حق مہر کی ادائیگی فرض ہوگئی اب اگر وہ یہ نہیں کرتا تو گناہ کا ارتکاب کرتا ہے جس کا حساب اسے دینا ہے انھوں نے تو اس ہی کے حساب کو آسان کیا ہوتا ہے۔

قرآن میں آتاہے اور عورتوں کے حق مہر ان کو خوشی سے دیا کرو اگر وہ کچھ حصہ اپنی مرضی سے معاف کردیں تو اسے خوشگواری سے صرف کرسکتے

ہو (سورتہ انساء)

اس آیت سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ مردوں کو کہا جا رہا ہے کہ وہ عورتوں کے حق مہر ہنسی خوشی ادا کیا کریں ہاں اگر وہ خود معاف کردیں تو بے شک استعمال کر سکتے ہیں مگر یہاں معاملہ برعکس ہے کہ مواجل مہر یہ سوچ کر لکھوایا جاتا ہے کہ ادائیگی تو کرنی نہیں اس لیے کم ہویا زیادہ کوئی فرق نہیں پڑتا اور کم پر زور اس لیے بھی ہوتا ہے تاکہ ادائیگی کرنی پڑجائے تو مسئلہ نہ ہو مگر نکاح کہ بعد اس پر کوئی بات ہی نہیں کی جاتی بلکہ یہیں سمجھاجاتا ہے کہ عورت معاف کر دے گی اس لیے بے فکر ہوجاؤ حتی کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے عورت کی بھی ایسی کوئی خواہش ہو جسے وہ پورا کرنا چاہتی ہو اور وہ اس رقم سے ممکن جو اس کا شرعی حق ہے اس لیے حق مہر کو اتنا معمولی نہ سمجھے ہو سکتا ہے اس لیے اس کی ادائیگی نہ کرنا آپ کے لیے ہی وبال کھڑا کردے اس لیے اپنا فرض کو پورا کریں اور دنیا اور آخرت دونوں سنواریے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).