ابن انشا بنام قرة العین حیدر


کراچی
9 مئی 1975

عینی بیگم! آداب۔ چند دن ہوئے پدما کا خط آیا جس میں آپ کے ترجمے کا تراشہ ملفوف تھا۔ پدما سے ہماری خط و کتابت ہے۔ معصوم سی خط و کتابت جیسی انڈر گریجویٹ لڑکے لڑکیوں میں ہوتی ہے اور جیسی کہ ہماری عمر کا تقاضا ہے۔ ہوش کی منزل کو پہنچیں گے تو ان جھمیلوں اور موہ مایا سے گریز کریں گے۔ لو ایک قصہ سنو۔ پچھلے مہینے ماری پور جانا ہوا۔ اپنے مدنی ساتھ لے گئے تھے۔ وہاں ان کے مرشد رہتے تھے۔ بابا ذہین شاہ تاجی۔ تصوف اور قوالیوں کے بحر ناپیدا کنار کے شناور۔ میرا قلب ابھی جاری نہیں ہوا، اس لیے جیسا گیا، ویسا لوٹ آیا۔ راستے سے گزرتے ہوئے جس کی شکل اب بالکل بدل گئی ہے، پہلی بار آپ کے ہاں ماری پور جانا یاد آیا۔ 25 برس پہلے ایوب احمد کرمانی کے ساتھ۔ پھر ادھر جانے کا موقع نہ ملا تھا۔ اب ہماری عمر میں 25 برس باقی نہیں کہ تیسری بار جائیں اور جائیں تو کیوں جائیں؟

آپ نے بڑا کرم کیا کہ میرا مضمون ترجمہ کیا اور زیور طبع سے آراستہ بھی کیا۔ بعض جگہ ہندوستان کے چند ناموں کا ذکر آیا تو آپ ڈنڈی ضرور مار گئی ہیں۔ سو یہ صحبت کا اثر ہے۔ اب اس کتاب کو ہند پاکٹ بکس والے چھاپ رہے ہیں، اس کے جیکٹ کے لیے آپ کچھ لکھ دیں۔ بشرطیکہ Undiluted تعریف میں ہو تو آداب بجا لاؤں۔ یہ جملہ شرطیہ نا حق لکھ دیا۔ میں جانتا ہوں جتنے نقاد صائب نظر رکھتے ہیں، وہ میری تعریف پر مجبور ہیں۔ بعض کج فہم اور کج نظر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو میری تحریر میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔

ایک پورا سیٹ اپنی کتابوں کا ایک بی بی کے ہاتھ آپ کے لیے بھیجا تھا کہ بریلی جا کر سپرد ڈاک کر دیں۔ وہ بی بی وہاں جا کر صاحب فراش ہو گئیں۔ گھٹنے پر ضرب آئی۔ جانے کس کی آنکھیں پھوڑنے کو مارا ہو گا۔ اس کتاب کے علاوہ میرے سفر نامے ہیں :  ”آوارہ گرد کی ڈائری“  ”دنیا گول ہے“  ”ابن بطوطہ کے تعاقب میں“  ”چلتے ہو تو چین کو چلیے“ اتنے سفر نامے ہو گئے ہیں کہ اب کہیں باہر جاتا ہوں تو Immigration والے حلف نامہ لیتے ہیں کہ آ کر سفرنامہ نہیں لکھوں گا۔ سال گزشتہ تین بار جاپان یا، ہر بار مسافر کے طور پر دلی کے ٹرانزٹ میں تھوڑی دیر کو اترتا ہوں اور حیرت و حسرت کا مارا پھر جہاز میں آ جاتا ہوں۔ دیکھئے کب راستے کھلتے ہیں، کب سبیل بنتی ہے۔

”کیا تھا ریختہ پردہ سخن کا، وہی ٹھہرا ہے اب فن ہمارا“

سنڈے کے سنڈے ایک کالم  ”جنگ“ اخبار میں لکھتا ہوں۔ اتنا اچھا ہوتا ہے، اپنے ہاتھ چوم لینے کو جی چاہتا ہے۔ بار بار پڑھتا ہوں لیکن طبیعت سیر نہیں ہوتی۔ ساتھ کے کالم میں مرزا جمیل الدین عالی کا عالمانہ اور فاضلانہ کالم ہوتا ہے۔ سنجیدہ اور مقطع لوگ ان کا کالم پڑھتے ہیں۔ قوم کے درد میں ڈوبا ہوا اور اسلام کے نشے میں سرشار ہوتا ہے۔ ویسے یہ ہمارے یار عزیز آج کل نیشنل بینک آف پاکستان کے ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ ہیں۔ بڑے دھانسو بینکر سمجھے جاتے ہیں۔

کیا  ”اردو کی آخری کتاب“ میں سے ایک آدھ قسط ویکلی میں اور ہو سکتی ہے؟ آپ جانتی ہیں مجھے شہرت کی تمنا نہیں لیکن قارئین کے پر زور اصرار کا کیا کیا جائے۔ ان چند برسوں میں بہت کچھ ادب عالیہ اس فقیر کے قلم سے سرزد ہوا۔ وہ بزبان انگریزی آپ کے پرچے کی شوبھا بڑھانے اور سرکولیشن گھٹانے کے لیے وقتاً فوقتاً بھیجا جا سکتا ہے۔ جی کڑا کر کے جواب دیجئے۔ یوں تو سفر ناموں میں بھی آپ کو بہت سے لولوئے لالہ ملیں گے۔ وہ نظم آپ کو ملی؟  ”یہ بچہ کس کا بچہ ہے؟“ میں چاہتا ہوں آپ اس کا انگریزی میں ترجمہ کر کے شائع کریں اور بھی بہت کلام بلاغت نظام ہے۔ سننے والے میں تحمل کا مادہ ہو۔ کار لائقہ و نالائقہ سے یاد کیجئے۔

نیاز کیش: ابن انشا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).