بارش گرتی ہے بے چار ے کراچی والوں پہ


کراچی کی حالیہ بارشوں نے شہر کا یہ حشر کیا کہ میر کی یاد تازہ ہو گئی! کیا بود و باش پوچھو ہو پنڈی کے ساکنو۔ ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے۔ کراچی جو ایک شہر تھا۔ عالم میں انتخاب رہتے تھے جہاں منتخب ہی روز گار کے سیاستدانوں نے اس کو لوٹ کر، برباد کر دیا، ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے۔

کراچی صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے اور آزادی کے بعد پاکستان کا دار الحکومت رہا۔ دنیا کا یہ ساتواں بڑا شہر ہونے کے علاوہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی اور تجارتی مرکز ہے۔ لسانی، مذہبی اور نسلی، اعتبار سے کراچی ایک متنوع شہر ہے جو سیکولر اور معاشرتی لحاظ سے لبرل بھی۔ بحیرہ عرب پر واقع کراچی کو دو بندرگاہیں کراچی اور بن قاسم چھوتی ہیں جبکہ پاکستان کا سب سے بڑی بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی یہیں ہے۔

اس عظیم شہر کے بانیوں نے کراچی کو مشرق کا نیویارک بنانے کا خواب دیکھا تھا اور یہ تیزی سے اس منزل کی جانب گامزن تھا کہ حاسدوں کی نظر لگ گئی۔ ذاتی مفادات، میں دہشت گردی، انتہاء پسندی اور علیحدگی پسندی نے مشرق کے اس موتی کو کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔ مون سون بارشوں میں بند نالے، مسدود سیوریج سسٹم اور ناقص نکاسی کے انتظام نے اس شہر کے مکینوں کا جینا دوبھر کر دیا۔

پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے نیشنل ڈیزاسڑ مینجمینٹ اتھارٹی ( این ڈی ایم اے ) کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ کراچی کے تمام نالوں کی صفائی اور ناجائز تجاوزات کو تین ماہ کے اندر ختم کردے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے مالیاتی دارالحکومت کو مختلف حکومتوں نے اپنی مجرمانہ غفلت سے جہنم بنا دیا۔

کراچی کی بیشتر سڑکیں اور گلیاں نکاسی کے ناقص نظام کے باعث غلیظ پانی سے بھر جاتی ہیں۔ بیشتر انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا ہے اور ہر بارش کے بعد گھنٹوں مرکزی شاہراہیں ٹریفک کے نظام بند ہونے سے متاثر ہوتی ہیں چونکہ کراچی میں کچرے کو پھینکنے کے لئے مناسب انتظام سے عاری ہیں لٰہذا لوگوں کا پھینکا ہوا کچرا، عمارتی ملبہ اور دوسری غلاظت نکاسی کے رہے سہے نظام کو جام کر دیتی ہے۔

پانی کی نکاسی کا مسئلہ کراچی والوں کے لئے و بال جان بن گیا ہے اور مختلف ادارے جو اس فرض پہ مامور ہیں مثلاً کراچی واٹر بورڈ اینڈ سیوریج بورڈ، ڈی ایم سی، کے ایم سی وغیرہ چونکہ اپنی اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھا رہے لہذا یہ ایک حساس مسئلہ بن چکا ہے۔ شہر کی انتظامیہ میں تعینات تنظیموں میں سے کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ کراچی کے مئیر کہتے ہیں کہ لوگ مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیتے جب وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ گھروں میں بارش کے سیلابی ریلے کے باعث پانی سینے سے بھی اونچا ہو جاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کراچی شہر میں 550 پانی کی نکاسی کی بڑی نالیاں ہیں جو تعمیراتی ملبے اور کچرے کی وجہ سے جام ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث مون سون کی بارشوں کا رجحان بھی تبدیل ہوا ہے لیکن کراچی کی انتظامیہ کو غیر معمولی اقدامات کے تحت بارش کے پانی کی نکاسی کا مسئلہ حل کرنا پڑے گا۔ 22 ستمبر سے بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔

این ڈی ایم اے نے پاک فوج کے انجینئروں کی مدد سے نالوں کی صفائی کا بیڑا تو اٹھایا لیکن یہ ناکافی ہے حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم نے کراچی کا رخ کیا اور کراچی کے لئے خصوصی پیکج کا اعلان کیا لیکن ان کے جاتے ہی کراچی میں حالیہ بارشوں کے باعث اربن فلڈ نگ اور جانی و مالی نقصان کے بعد کراچی پیکج پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا افسوس ناک سلسلہ شروع ہو گیا۔ وفاق اور صوبے میں ٹھن گئی کہ پیکج کون وصول کرے گا؟ اتنے بڑے پیکج پر سب کی رالیں ٹپک رہی ہیں، صوبائی حکومت کبھی کہتی ہے کہ اسے وفاق کی نیت پر شک ہے تو کبھی یہ کہتی ہے کہ اتنی بڑی ذمہ داری صوبائی حکومت اکیلے نہیں سنبھال سکتی اسے وفاق کی ضرورت ہے۔

کراچی جو عالم میں انتخاب شہر تھا اس کی رونقیں بحال کرنے کے لئے وفاق اور صوبائی حکومت کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ کراچی کی مخدوش صورتحال سے متاثر ہو کر میری خالہ زاد بہن ماہ طلعت شاذی نے کچھ اشعار کہے جو قارئین کی خدمت میں پیش ہیں :

ڈوبتا کراچی
کراچی شہر ڈوبتا جا رہا ہے جو پانی کا ریلا چلا آ رہا ہے
کہ سڑکیں ہیں دریا، نہر ہر گلی ہے کہ مرجھائی امید کی ہر کلی ہے
گھروں میں ہے پانی، بازاروں میں پانی ہے پانی میں بستر، چھتوں تک ہے پانی
مکینوں کو مشکل ہے جاں اب بچانی
اگر تیرنا بھی انہیں آ گیا تو حفاظت کی کوئی جگہ تو بتا دو

کراچی نے سب کو گلے سے لگایا یہاں سے بہت کچھ سب ہی نے ہے پایا
مگر آج کیوں بے کسی کا ہے منظر کوئی ہاتھ تھامے تو اب اس کا آ کر
ہے گرمی شدید اور بجلی نہیں ہے کرونا ہے پھیلا، دوا بھی نہیں ہے
نہ پینے کو پانی، ہے جیب ان کی خالی کہیں سے تو آ جائے امداد مالی
یاں رہتے ہیں غازی و مصری و قائد جنہیں بھول بیٹھے حکمراں ہیں شاید
وگرنہ یہ حالت نہ ہوتی یہاں کی سکوں سے عوام اپنی سوتی یہاں کی
جو شاذی کو یاں سے نظر آ رہا ہے یہ منظر نہ کیوں سب کو تڑپا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).