انڈیا سے جنگ جیت کر چین اروناچل پردیش سے پیچھے کیوں ہٹا؟


سنہ 1962 میں چین اور انڈیا کے درمیان جنگ شروع ہوئی۔ اس وقت چینی فوج نے آدھے سے زیادہ اروناچل پردیش پر قبضہ کر لیا تھا۔

اس کے باوجود چین نے یکطرفہ سیز فائر کا فیصلہ کیا اور ان کی فوج میکموہن لائن سے پیچھے چلی گئی۔

علاقائی امور کے ماہرین بھی یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر چین سرحد کے قریب واقع اروناچل پردیش اپنا سمجھتا ہے تو اس کی فوج 1962 میں یہاں سے واپس کیوں گئی تھی۔

اگر چین چاہتا تو جنگ کے بعد اس خطے پر قابض ہوسکتا تھا۔

چین کا اعتراض

چین کے مطابق اروناچل پردیش انڈیا کا نہیں بلکہ جنوبی تبت کا حصہ ہے۔ اسی لیے چین اروناچل پردیش میں کسی بھی سرکاری دورے پر اعتراض کرتا ہے، چاہے وہ تبت کے مذہبی رہنما دلائی لاما کا ہو یا انڈیا کے کسی وزیر اعظم کا۔

سنہ 2014 کے انتخاب میں فتح کے بعد نریندر مودی نے اس ریاست کا دورہ کیا تھا جس پر چین نے اس دورے پر ایک بیان کے ذریعے اعتراض اٹھایا تھا۔

چین، انڈیا

یہ بھی پڑھیے

انڈیا اور چین کا سرحدی تنازع کیا ہے؟

انڈیا اور چین سرحدی کشیدگی کم کرنے کے لیے پانچ نکاتی ایجنڈے پر متفق

چین، انڈیا سرحد پر فائرنگ: دونوں ممالک کا ایک دوسرے پر پہل کرنے کا الزام

جب چین میں انڈین سفارتخانہ چاروں اطراف سے گھیر لیا گیا

اروناچل پردیش پر دعویٰ

ماہرِ علاقائی اموار ہرش پنت کے مطابق سب سے بڑا مسئلہ میکموہن لائن کی عدم موجودگی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ چین اروناچل پردیش پر اپنا دعویٰ دہرا کر سفارتی سطح پر برتری چاہتا ہے۔ ’لیکن کبھی اس پر اپنا متحرک کنٹرول قائم نہیں کرنا چاہتا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اروناچل پردیش کے لوگ کبھی چین کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے۔

سنہ 1914 میں جب انڈیا پر برطانوی راج قائم تھا اس وقت شملہ کے مقام پر انڈیا اور تبت کی حکومتوں کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا۔

اس معاہدے پر سر ہینری میکموہن نے دستخط کیے تھے جو اس وقت برطانوی حکومت کے ایڈمنسٹریٹر تھے۔ ان کے ساتھ تبت کی حکومت کے ایک نمائندے نے بھی دستخط کیے تھے۔

چین انڈیا

انڈیا نے چین پر الزام لگایا ہے کہ اُس نے ہزاروں فوجی لداخ کی وادی گلوان بھیجے ہیں

میکموہن لائن

معاہدے کے بعد انڈیا اور تبت کے درمیان سرحدیں طے ہوگئی تھیں۔ پھر اس کے بعد انڈیا سنہ 1947 میں اور چین 1949 میں آزاد ممالک بنے۔

لیکن چین نے شملہ معاہدہ مسترد کیا اور کہا کہ تبت پر چین کا حق ہے اور وہ ایسے کسی معاہدے کو تسلیم نہیں کرے گا جو تبت کی حکومت کے کسی نمائندے نے طے کیا ہو۔

انڈیا میں پہلی بار سنہ 1938 میں میکموہن لائن کو نقشے میں برطانوی راج کے دوران ظاہر کیا گیا۔ جبکہ نارتھ ایسٹ فرنٹیئر صوبے کا قیام 1953 میں عمل میں آیا۔

چین نے اس وقت تک اروناچل پردیش کے حوالے سے کسی جارحیت کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ لیکن ماہرین کے مطابق سنہ 1986 میں انڈین فوج نے اروناچل پردیش میں سامدرونگ چو کے مقام پر چینی فوج کی بنائی کچھ پکی عمارتیں دیکھی تھیں۔

چین انڈیا

پہلی فلیگ میٹنگ

انڈین فوج اس علاقے میں متحرک ہوگئی اور اپنی نفری بڑھا دی تھی۔

ماہرینِ علاقائی امور کے مطابق یہ وہ وقت تھا جب انڈیا اور چین کے درمیان جنگ کا خدشہ بڑھ گیا تھا۔

یہ معاملہ اس وقت ٹھنڈا پڑگیا جب انڈیا کے وزیر خارجہ نارائن دت تیواری بیجنگ کے دورے پر گئے تھے اور دونوں ملکوں کی فوج کے درمیان پہلی فلیگ میٹنگ رکھی گئی تھی۔

بعد کے برسوں میں چین نے جارحیت کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا۔ ایک مرتبہ وادی دیبانگ میں چینی فوج نے پوسٹر لگا دیے تھے جن پر لکھا تھا کہ یہ علاقہ چین کے زیر انتظام ہے۔

اروناچل پردیش پہلی مرتبہ سنہ 1987 میں ایک الگ ریاست بن کر ابھرا۔ 1972 تک اسے نارتھ ایسٹ فرنٹیئر ایجنسی کہا جاتا تھا۔ 20 جنوری 1972 میں اسے یونین علاقے کی حیثیت ملی اور اروناچل پردیش کا نام رکھا گیا۔

ریاست میں مشرقی انجا سے لے کر مغربی توانگ تک لائن آف ایکچوئل کنٹرول یا ایل اے سی پر 1126 کلو میٹر کے علاقے پر چینی سرگرمیاں جاری رہی ہیں۔

بیچ میں چین نئے نقشے بھی جاری کرتا رہا جس میں اس کے مطابق اروناچل پردیش کے کئی حصے اس کے ہیں۔

تبت پر چین کی حکومت

انڈیا اور چین کے درمیان پہلی مرتبہ تعلقات اس وقت خراب ہوئے جب 1951 میں چین نے تبت پر حکمرانی شروع کی۔

چین کا کہنا تھا کہ وہ تبت کو آزادی دے رہا ہے۔ دریں اثنا انڈیا نے تبت کو ایک الگ ملک تسلیم کیا۔

چینی فوج

پیپلز لبریشن آرمی

ایسے کئی علاقے جہاں چین کی پیپلز لبریشن آرمی ورزیاں کر رہی ہیں یہ وادی دیبانگ میں موجود ہیں۔

چین ایل اے سی پر بھی اپنی موجودگی کو بڑھا رہا ہے اور اس نے کئی سڑکیں اور پُل تعمیر کیے ہیں۔

ماہرِ علاقائی امور سوشانت سرین کے مطابق کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین 1962 میں اتنا طاقتور نہیں تھا جتنا آج ہے۔

تو اس نے اُس وقت خود کو جنگ سے دور کیا۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ انڈیا اب 1962 کا انڈیا نہیں رہا۔

سوشانت سرین کا کہنا ہے کہ ’چین کو بھی یہ احساس ہے کہ انڈیا کی فوجی قوت اب اتنی کمزور نہیں رہی۔ لیکن چین بدھ مت کے مذہب کو قابو میں رکھنے کے لیے توانگ کے خانقاہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔

’یہ جگہ 400 سال پرانی ہے کہ اس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ چھٹے دلائی لاما 1683 میں یہاں پیدا ہوئے تھے۔‘

اس لیے ان کے مطابق چین کو لگا کہ اروناچل پردیش کے لوگوں کو چین داخل ہونے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں۔

لیکن اروناچل میں سیاسی جماعتیں اور مقامی لوگ چینی سرگرمیوں سے ناخوش ہیں۔

کئی رہنماؤں نے اس حوالے مرکزی حکومت سے رابطہ کیا ہے۔ ان میں سے ایک تاپر گاؤ ہیں جو اروناچل پردیش کے ایم پی ہیں۔ انھوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر اپنے خدشات سے آگاہ کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp