سماجی المیے کی تجریدی تصویر


ہر معاشرے کے لیے کچھ سوال ضروری ہوتے ہیں اور ان سوالوں کے جواب اجتماعی اور انفرادی ضمیر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جہاں شور شرابا اور غیرضروری بحث روزمرہ کا معمول بن چکے ہوں کیا ایسے معاشرے میں ہم بامقصد و ضروری امور پر شائستہ اور نیتجہ خیز گفتگو کا تصور کر سکتے ہیں؟

ہمارے معمول کے رویے ہماری سوچ اور فہم کو سادگی کے ساتھ عیاں کردیتے ہیں اور یوں کچھ لوگوں کے فرض کردہ عظیم قوم اور اس طرح کے بلند و بانگ سے محض دعوؤں کا تانا بانا بکھر جاتا ہے۔ ادب اور تاریخ میں ہمیں بہت سی مثالیں اور حوالے مل جاتے ہیں کہ اگر ہم حقیقی معنوں میں اصلاح احوال اور بہتری کے لیے سرگرداں ہوں تو سبق سیکھنے اور سمت کے درست تعین کے لیے آسانی ہو سکتی ہے۔

مگر شاید ہمارا ایک المیہ ہے اور وہ ہے احساس زیاں کا جاتے رہنا۔ ہم ایسے لوگ بن گئے ہیں جن کی زندگی کا محور چند چیزیں اور غیرضروری امور بن کر رہ گئے ہیں۔ ایک فرد، معاشرے، ملک یا قوم کے طور پر اگر اس سیارے پر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر کی معاشی اصطلاح کو سماجی معیار، ذمہ داری اور بیدار معاشرے کے ضمن میں برتا جائے تو ہمارے سامنے بہت سے معیار وجود میں اتے ہیں جن پر عمل درآمد یا نظرانداز کرنے کے پیمانوں سے ہم اس سلسلے میں اپنی موجودہ سطح کو سادہ طور پر دیکھ سکتے ہیں۔

بڑی بڑی باتوں، الزام لگانے کی دوڑ، مشکل الفاظ کے استعمال سے دھاک بٹھانے، گزشتہ اور موجودہ اطوار حکمرانی اور انتظام کے طویل موازنوں اور اپنی سمجھ کو دوسروں پر تھوپنے کے معاملات کو اگر بالائے طاق رکھا جائے اور سادگی، ذمہ داری، تحقیق اور تلاش کے حقیقی جذبے سے ڈھونڈا جائے تو شاید جواب مل سکیں۔

جن باتوں کا جواب کم عمر افراد بھی بغیر کسی جھجک اور آسانی کے ساتھ دے سکیں تو ان سوالات کے لیے غیرضروری بحث کا کیا فائدہ۔ بھیانک واقعات، دلخراش خبریں اور دکھ بھری باتیں کیا یہی اس معاشرے کی قسمت میں لکھ دی گئی ہیں۔ کیا بہتری کا خواب اور ایک اچھی زندگی کی امید کو ایک لایعنی بات کا درجہ دے دیا گیا ہے۔

افراد کب سے پورے نظام اور سماج سے زیادہ اہم ہوگئے ہیں کہ ان کے لیے سچ اور جھوٹ، دیانت اور بدیانتی، صحیح اور غلط کے آفاقی موثر اصولوں کا ایک طرف رکھ کر ڈھٹائی اور شدید اڑیل پن کے ساتھ کھوکھلے لفظوں اور بے وقعت دلائل کے ساتھ بدعنوان ذمہ داروں کے حق میں بحث کی جائے۔

آج ایک شاہراہ، کل ایک گاؤں، پرسوں ایک قصبہ اور پھر کیا کوئی ایسا مقام محفوظ رہنے کی توقع کی جاسکے گی کہ جہاں کوئی خود کو محفوظ سمجھنے کی عیاشی کرسکے۔ کیا ہر اک موڑ، ہر جگہ اور ہر اک مقام پر قبضہ ہوچکا ہے؟ کیا انصاف، دیانت، انتظام، ذمہ داری اور ضمیر سب کو کسی اندھیرے تہہ خانے میں اسیر کر دیا گیا ہے؟ کیا اب کوئی امید، کوئی توقع، کوئی خواب کے تعبیر پانے یا بر انے کی بات مذاق تو نہیں بن چکی ہے۔

ہر اک زمین، نظریہ، خیال، سوچ، خواب، امید، تمنا، تخلیق : یہاں کیا سب کے مقدر میں ایک قبضہ ہے اور پھر تباہی۔ کیا ہم اپنی تہذیب اور معاشرے کا سوان سونگ سن رہے ہیں اور میں یہ لفظ کس کے لیے لکھ رہا ہوں۔

کیا ہم خواب، خیال اور امید کو رائیگاں سکے کا رتبہ دے چکے ہیں۔ آخر جو نظر نہیں اتا کیا وہ حقیقت نہیں اور کیا جو نظر آتا ہے بس وھی حقیقت لگنے لگا ہے۔

کیا بس اب ہم اپنے اختتام کے ایک آخری سفر پر ہیں اور تیز رفتاری کے ساتھ نیچے کو جانے والے مرغولے میں بے اختیار سے چلے جا رہے ہیں یا شاید کہ امید کے دیے میں ابھی ایک آخری لو کے بھڑک اٹھنے کی طاقت ہے اور شاید وہ ایک لمحہ ابھی باقی ہے کہ تمام تر تیزی کے ساتھ پستی کے سفر کی رفتار کو روکا جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).