پرولتاری انقلاب سے خاندانی ملوکیت تک


 کارل مارکس کے انقلابی نظریے پر بیسویں صدی میں رونما ہونے والے انقلابات نے ایشیا، یورپ، افریقہ اور برا عظم امریکہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ روس کےکامریڈ ولادیمر لینن اور چین کےچیر مین ماؤ زے تنگ نے مارکس کے اشتراکی نظریے کو اپنے اپنے معنی اور تعبیر دے کر انقلاب برپا کیا جس کی پذیرائی دنیا کے چھوٹے بڑے ممالک میں ہوئی۔ کسی ایک نظریے یا کسی ایک شخص کی اتنے کم عرصے میں اس قدر زیادہ پذیرائی کا اعزاز صرف کارل مارکس اور اس کے اشتراکی نظریے کو ہی حاصل ہے۔

کارل مارکس نے اپنے اشتراکی انقلابی نظریے کی بنیاد جدلیاتی مادیت پر رکھی تھی جس کو ان کے ماننے والے مارکسزم کہتے ہیں اور اس کو سائنس کے درجے پر رکھتے ہیں۔ جیسا کہ اس اقتباس میں کہا گیا ہے کہ \”مارکس جو ڈارون سے امتیازی طور پر ایک باشعور جدلیات پسند تھا‘ اس نے انسانی سماجوں کی ان کی پیداواری طاقتوں کی روشنی میں سائنسی درجہ بندی دریافت کی تھی۔ اس نے ملکیت کے تعلقات کا ڈھانچہ بھی معلوم کیا جو معاشرے کی جراحی پر مشتمل تھا۔ ریاست اور سماجوں کی بیہودہ درجہ بندی کی جگہ مارکسزم نے لے لی جو جدلیاتی مادیت کی درجہ بندی ہے۔ مارکس کا طریقہ اختیار کرنے کے بعد ہی مزدور ریاست کے نظریے اور اس کے زوال کے لمحے کا تعین کیا جا سکتا ہےً (پندرہ روزہ طبقاتی جدوجہد مئی 2016 لاہور ۔)

آسان الفاط میں مارکس معاشرتی ارتقائی عمل کو کاشتکاری کے بعد اس کی جاگیرداری اور پھر سرمایہ داری کے مدارج کو سوشلزم کی جانب ایک سفر سے کرتا ہے۔     مارکس کے ماننے والے اشتراکی انقلاب کے بعد مزدوروں کی عبوری پرولتاری آمریت کو لازمی گردانتے ہیں تاکہ اس دوران ایک انصاف پسند، برابری کے علمبردار، بنیادی انسانی حقوق کے پاسبان اور فلاحی معاشرے  کی تشکیل نو ہو سکے۔ پرولتاری آمریت کے بعد ایک فلاحی اشتراکی مملکت وجود میں آجاتی ہے جس کا عنان اقتدار مارکسی فلسفہ انقلاب کے مطابق بغیر دھونس، جبر، دباؤ اور دولت کے بل بوتے پر انفرادی و اجتماعی حق راۓ دہی کے خرید و فروخت کے عوام کے منتخب کردہ لوگوں کو منتقل ہو جانا چاہیئے۔ اگر اس نقطہ نظر کا عملی مظاہرہ دیکھا جاۓ تو روس میں بالشویک انقلاب اور چین کے عوامی انقلاب کے بعد وہاں پرولتاری آمریت کے نام پر کمیونسٹ پارٹیوں کی حکومتیں قائم کی گئی تھیں۔ روس کے منتشر ہونے تک ایک ہی پارٹی کی آمرانہ حکومت رہی مگر اس کے بعد وہاں پرولتاری آمریت کی جگہ مغربی سرمایہ درانہ جمہوریت نے لے لی ،چین میں اقتدار اعلیٰ کو کمیونسٹ پارٹی تک محدود اور منجمد ہےجبکہ نظام مملکت اب سرمایہ درانہ خطوط پر منڈی کی معشیت بن چکا ہے۔ چین میں اقتدار میں عوام کی شرکت اور جمہوریت کا مطالبہ کرنے والوں پر گولیاں چلائی گیئں ہیں ۔

اشتراکی روس کے شیرازہ بکھرنے کےساتھ ہی وسط ایشائی مسلمانوں کی اکثریت والی ریاستوں میں موجود کمیونسٹ پارٹی کے نامزد عہدیداروں نے قبضہ کیا اور اشتراکی دور میں جمہوریہ کہلانے والی ریاستوں کو اپنی ذاتی امارتیں اور سلطنتیں بنا ڈالیں۔ جمہوریت کو بھی اس انداز سے استوار کیا کہ ان کے علاوہ کسی کو انتخابات نام سے رچاۓ جانے والے ڈرامے میں حصہ لینے کی توفیق نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان ممالک میں سیاسی بے یقینی اور بے چینی کی فضا بر قرار ہے ۔ مسلمانوں کی اکثریت والی ریاستوں میں حکمرانوں کی جمہوریت کے آفاقی اصولوں کی خلاف ورزی اور عوام سے کھلی دھوکہ دہی ایک مخصوص زہنیت کی غمازی کرتی ہے جس کا شکار مسلمان گزشتہ ڈیڑھ ہزار سال سے ہیں۔ اس ذہنیت کے حامل لوگوں نے ہمیشہ جنگ و جدل، دھونس دھاندلی سے اقتدار پر قبضہ کیا اور بلا شرکت غیرے اس پر تسلط جماۓ رکھا اور بطور میراث اپنی آئندہ نسلوں کو منتقل کیا۔ جبکہ باقی آزاد ہونے والی روسی ریاستوں اور مشرقی یورپ میں اشتراکی آمریت جمہوری نظام حکومت میں بدل کر بغیر کسی پس و پیش کے چلنے لگی جو وہاں کے عوام کے اجتماعی شعور کی پختگی اور بالیدگی کا ایک مظہر ہے۔

سن انیس سو پچاس کی دہائی کے آخر میں سرمایہ داری نظام کے سرخیل ریاست ہاۓ متحدہ امریکہ کے پہلو میں ایک چھوٹے سے ملک کیوبا میں بھی مارکس کے فلسفہ انقلاب پر انقلاب برپا ہوا۔ فیڈل کاسترو نام کے ایک بے خوف، نڈر اور بے باک انقلابی رہانما نے اپنے دوست چی گویرا کی مدد سے لاطینی امریکہ میں ایک اشتراکی یا سرمایہ داری کی دشمن ریاست کی بنیاد ڈال دی۔ امریکہ بہادر کی تمام تر کاؤشوں ، بد معاشی اور سازشوں کے باوجود کاسترو زندہ اور سلامت رہے اور ایک طویل زندگی گزارنے کے بعد نوّے سال کی عمر اپنی طبعی موت مرے۔ جب تک زندہ رہا کاسترو امریکہ کے پہلو میں ایک کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا اور اس کو پریشان کئے رکھا۔

مرتے مرتےفیڈل کارسترو نے اقتدار اپنے بھائی راول کاسترو کے حوالے کر دیا جو جمہوری سے زیادہ ایک موروثی مملکت کے وجود کی نشان دہی ہے جہاں باپ سے بیٹے اور بھائی سے بھائی کو اقتدار وراثت کے مانند منتقل ہو جایا کرتا ہے۔ مارکسی فلسفہ انقلاب میں انتقال قتدار کے واضح فارمولے کی عدم موجودگی میں اشتراکی انقلاب برپا کرنے کے بعد بھی ریاستیں شخصی اور تنظیمی آمریت کا شکار ہو گیئں جو ایک المیہ ہے۔روس، چین، لیبیا، کیوبا ، لاؤس ، ویتنام اور شمالی کوریا ہر جگہ  مارکسی انقلاب کے داعی جب اقتدار میں آۓ تو انھوں نے بھی وہی اطوار اپنا لیے جو ان کے پیش روؤں کے تھے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ بورژوا کہلانے والے سرمایہ داروں کی جگہ اب کمیونسٹ پارٹی کے عہدیداروں اور ان کے گماشتوں نے لے لی جن کی تحویل میں نہ صرف پیداواری زرائع رہے بلکہ صارفین اور خریدار بھی ان کی رعیت میں شامل ہوتے ہیں جن کی خریداری اور حق تصرف بھی ان کے مرضی کی تابع ہوتی ہے۔ آزاد مسابقتی معاشی منڈی کے برعکس اشتراکی ممالک میں پیداوار اور اشیاۓ صرف نہ صرف غیر معیاری ہوتی ہیں بلکہ ان تک رسائی بھی محدود ہو تی ہے۔ سرمایہ درانہ مغربی ممالک کے مقابلے میں اشتراکی ممالک میں مزدوروں اور کسانوں کے حالات اور معیار زندگی میں کوئی قابل رشک تبدیلی نہ آسکی جس کا مارکسی اشتراکی نظام نے وعدہ کیا تھا۔ مغربی سرمایہ درانہ ملکوں میں اشتراکی ممالک سے راہ فرار اختیار کرکے پناہ مانگنے والے ہنر مند اور تعلیم یافتہ شہریوں کی تعداد ان ممالک میں میعار زندگی کے غیر اطمنان بخش ہونے کا ایک ثبوت ہے۔ بنیادی انسانی حقوق اور ان کے تحفظ کا میعار بھی اشتراکی ممالک میں ہمیشہ سوالیہ رہے ہیں۔

جمہوریت بنی نوع انسان کا روۓ زمین پر مشترکہ ورثہ ہے جس نے حصول اقتدار کے لئے اٹھنے والی تلواروں کو نیام میں رکھ کر لوگوں کے ہاتھوں میں ووٹ کی پر چی تھما دی ہے جس نے اقتدار پر قبضے کی جنگ کو پر امن انتقال اقتدار میں بدل دیا ۔ جمہوریت ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے ایک عام آدمی کو امور ریاست میں شرکت کا موقع مل جاتا ہے۔ جمہوری اصولوں کے تحت ہونے والے فیصلے کبھی کبھار دیر سے ہوتے ہیں ، کمزور بھی ہوتے ہیں اور وقتی طور پر غلط بھی نظر آتے ہیں لیکن ان فیصلوں کو عام و خاص کے اکثریت کی بھر پور تائید حاصل ہوتی ہے۔ آمرانہ فیصلے جلد ہوتے ہیں، وقتی طور پر ٹھیک بھی لگتے ہیں لیکن عوامی تائید سے خالی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے بطور صدر انتخاب کا امریکی عوام کا فیصلہ یا یورپی یونین سے نکلنے کا برطانوی عوام کا فیصلہ ہمیں چاہے جتنا غلط لگےلیکن ان فیصلوں کو ان ممالک کے عوام کے اکثریت کی جس طرح تائید حاصل ہے وہ پرولتاری آمریت کے نام پر راول کاسترو کے بطور حکمران نامزدگی اور شمالی کوریا میں جانشینی کے انفرادی یا گروہی فیصلے کو نہیں ہے۔

پرولتاری آمریت کے مزدوروں کے حکمرانی کے استقامت کے مارکسی فلسفے کا انقلابیوں کے ہاتھوں یوں خاندانی ملوکیت میں بدل جانا ایک المیہ سے کم نہیں ۔ اگر جمہوری اصولوں پر عوامی تائید اور شرکت سے انتقال اقتدار کو یقینی نہ بنایا گیا تو رہی سہی ا شتراکی ریاستیں بھی لینن کے روس کی طرح ماضی کا حصہ بن جائیں گی۔ اگر اشتراکیت کو لازمی ریاستی جبر کے طور پر نافذ کیا گیا تو اس میں اور مذہبی ریاستوں میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔ بعض ناقدین کے نذدیک یہ فرق پہلے ہی ختم ہو چکا کیونکہ اشتراکیت بھی ایک معاشی اور سیاسی نظام کے بجاۓ ایک عقیدہ بن چکا ہے جس سے اس پر قابض چند لوگ ہی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ نظام شخصی اور خاندانی میراث بن کر ماضی بن جاۓ اس کو جمہوری حق بنا کر عوامی تائید اور حمایت دینے کی ضرورت ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments