شکل اور سمت


علم نجوم اور آسمان پہ موجود اشکال (Constellation/ ستاروں کا جھرمٹ) تو قدیم یونانیوں اور جادوگری مصریوں میں مقبول تھا۔ امریکہ میں سمت، نقشے اور جغرافیہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے (کیوں نہ ہو) ۔ مسلمانوں میں بھی رائج تھی (کیوں نہ ہوتی، ، وہ دور مسلمانوں میں انسانیت کی معراج، تعلیم و تربیت کے حصول کا تھا۔ ) ۔

پاکستان میں سمت کو بھی، اخلاقیات، دینیات کی طرح مضمون (جغرافیہ کا مضمون) سمجھ لیا گیا ہے۔ مضمون پڑھا ہوگا تو سمتوں کا، نقشوں کا پتہ ہوگا، ورنہ نہیں۔

چاہیں آپ دنیا یا پاکستان گھومیں ٹکریں مارتے پہنچنے کی بات ہی کچھ اور ہے۔ اور پاکستانی اس طرح ٹکریں مارتے جانے پر فخر بھی کرتے ہیں۔

یہاں سمت کا تعین، اگر کرنا ہو یا کسی سے راستہ، بڑی مین شاہراہ کا پوچھنا ہو تو عموماً گردن کسی اور سمت، ہاتھ کسی اور سمت اشارہ کرتا ہے۔ زیادہ زور دے کر پوچھ لیں تو ”پائے، پان کی دکان سے لے کر چھت پہ کپڑے ٹنگے“ جیسی نشانیوں سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔

جغرافیہ بحیثیت، اہم معلومات، باآسانی سفر کے زمرے میں آتا ہی نہیں۔

ترکی میں ایک خاتون سے میں نے پوچھا کہ اگر یہاں راستہ بھول جائیں، غلطی سے کسی اور علاقے میں پہنچ جائیں تو کیا کوئی سروس ہے جو رہنمائی کر سکے۔ اس نے بڑے چہکتے ہوئے کہا،

(It is good to be lost in Istanbul)

یہ تو بڑا خوش کن ہوگا کہ استنبول میں گم ہو جائے۔ میں نے وضاحت چاہی۔ کہنے لگی کہ ایک تم بہت خوبصورت علاقے دیکھو گی دوسرا، اگر کسی سے راستہ پوچھ لیا تو تم کو یا تو اسٹاپ تک، ٹیکسی تک، یا گھر تک پہنچا کے آئے گا چاہے جو شخص بھی ہو۔

اول تو یہاں سارے کمیوٹ سسٹم، ان کے روٹس اور اسٹاپ سے لے کر بسوں کے اوقات تک کی موبائل ایپ موجود ہے۔ گم ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ایپ ترکی نے ہی بنائی ہے۔ ترکی کی ایجادات کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے ہر ترک کے چہرے پہ جو فخر اور حسن جھلکتا ہے وہ ان کا اپنا خاصہ ہے کیوں نہ ہو، وہ ہر ترقی یافتہ قوم کی طرح بہترین تعلیم یافتہ اور باشعور قوم ہے جو اپنے نوجوانوں کو تعلیمی میدان میں آگے رکھنے کے لئے ہمہ وقت کوشاں ہیں۔ مجھے بھی یاد ہے بچپن میں ایٹم بم، یہ میزائل، وہ میزائل جیسی ایجادات کے بارے میں سنا تھا۔ فخر بھی ہوا تھا۔ پھر جوں جوں بڑے ہوئے سارا فخر جاتا رہا کہ یہ ایجادات تو ہمارے کام ہی نہیں آ رہیں۔

خیر تو بات امریکہ کی ہو رہی تھی۔ مجھے بچوں کے پروگرام کارٹونز، فلمز کے معلوماتی مواد دیکھ کر اس قوم کے بچوں کی ذہنی صحت مندی پہ کسی ذہنی بیماری کا شائبہ تک نہ گزرا۔ بلکہ ان بچوں کی زندگی میں آگے بڑھنے، کام آنے والے متعلقہ شعبوں کی معلومات پر تو دل مچل کر رہ گیا کہ کاش یہیں اسکول پڑھا ہوتا۔ یہ ٹی وی پر آنے والے پروگراموں سے معلومات ہو رہی ہیں۔ صرف ٹی وی پروگراموں کی بات کررہی ہوں۔

اسکے علاوہ بیشمار رسائل بھی نکلتے ہیں جن میں بچوں کے ادبی، فنونی ذوق، ہنر سیکھنے، بیکنگ، کوکنگ، مشروبات، سیاحت، سائنس، معاشرتی علوم، جنرل نالج سے لے کر قدرتی آفات کا سامنا، قدرتی قدیمی انسانوں کا موسمی سختیوں کو جھیلنے اور جینے (سروائیو) جیسے موضوعات شامل ہیں۔ یہ صرف رسائل کی بات کررہی ہوں، کتابیں اس کے علاوہ ہیں۔ میں نے بچوں تک کو ساوتھ، ویسٹ، ایسٹ، نارتھ، اور اسی مناسبت سے شمال مشرقی یا مغربی ( اسی طرح کی سمت نکلتی چلی جاتی ہیں ) بولتے سنا ہے ہمارے ہاں بچے سمت بھی بڑوں سے سیکھتے ہیں۔

(اوہ گاڈ) بڑوں کا یہ دعوی ہے کہ وہ بچوں کی بہترین تربیت کرتے ہیں سا ا اب (سب) سکھاتے ہیں (ٹو ٹو اوہ گاڈ) ۔ وہ خود کتنا جانتے ہیں یہ تو اوپر پڑھا جاسکتا ہے جہاں گردن کہیں ہے اور ہاتھ کسی اور سمت۔

مجھے یہ جاننے میں دلچسپی ہوئی کہ بچے نقشے کس طرح یاد کرتے ہیں۔ یہاں امریکہ، چائنہ سے مستفید ہوا۔ یعنی بچے نقشے سے کوئی شکل اخذ کر کے اس ملک کے نقشے کو نام دے دیتے ہیں اور بڑے بھی۔ جو پرانے دور میں یونانی، آسمان پہ ستاروں کو دیکھ کر اور بعد میں مسلمانوں نے قرون وسطی میں یہی طریقہ رائج رکھا تھا وہی رائج ہے۔ یوں باآسانی یاد ہو جاتا ہے۔

مثلاً ویل مچھلی، ایل شیپ، ڈک، مگر مچھ، چکن، بیٹ وغیرہ وغیرہ۔ میں نے پاکستان کا نقشہ جاننے کی کوشش کی۔ اور حقیقت کچھ یوں نکلی۔ ۔ ۔ حقائق دلچسپ بھی ہیں اور معلوماتی بھی۔ تصاویر گوگل سرچ کر کے بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ قوموں کے اس ستاروں کی جھرمٹ نقشے میں ہمارا نقشہ ہی بدلے جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).