گلگت بلتستان کا مختصر سیاسی ارتقا (دوسری قسط)


ایک وقفے کے بعد گلگت بلتستان اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ ”گلگت بلتستان کا مختصر سیاسی ارتقا“ کا آج پھر سے مطالعہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ رپورٹ کا دیباچہ، اسپیکر گلگت بلتستان اسمبلی کا پیغام اور ابتدائیہ تقریباً ایک دوسرے سے مماثل ہیں۔ نچوڑ یہی کہ گلگت بلتستان پر کئی سو سالوں سے راجوں اور سرداروں کی حکمرانی رہی۔ 1381 میں یہاںاسلام کی آمد ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ علاقے میں اسلامی معاشرے کی بنیاد ڈالی گئی۔ مگر عرصہ دراز تک حکمرانی سکھوں، ڈوگروں اور انگریزوں کی بھی رہی۔ تقسیم ہند کے وقت مہاراجہ کشمیر کے لوگوں کی خواہشات کے برعکس جموں و کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کے فیصلے کے خلاف لوگوں نے جہاد کا اعلان کیا۔ گلگت سکاؤٹس کی قیادت میں یہاں کے باسیوں نے ڈوگرہ گورنر برگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کرکے علاقے کو آزادی سے ہمکنار کیا۔

دن کے آخری حصے میں عبوری حکومت قائم کی گئی جس کے تحت راجہ شاہ رئیس خان کو ایجنسی کا صدر مقرر کیا گیا۔ لیفٹیننٹ حیدر اور کمشنر بابرخان کو کوارٹر ماسٹر بنادیا گیا، حسن خان خود نگران اعلیٰ بن گئے، کیپٹن سعید کو غالباً نگران اعلیٰ کا ڈپٹی، براؤن اور میتھی سن حسن خان کے فوجی مشیر بنا دیے گئے۔

جمہوریہ گلگت کے نام سے یہ علاقہ صرف سولہ دن ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے قائم رہا پھر بغیر کسی پیشگی شرائط کے ان علاقوں کو پاکستان میں شامل کر دیا گیا۔ 14 اگست 1948 کو چترال سکاؤٹس کی معاونت سے سکردو کو بھی آزاد کرکے پاکستان سے الحاق کر دیا گیا۔

1949 میں کراچی معاہدے کے تحت گلگت بلتستان کے انتظامی امور کو این ڈبلیو ایف پی سے وفاق منتقل کر دیا گیا۔ 1959 میں ولیج ایڈ کے نام سے ترقیاتی کاموں کا ایک پروگرام شروع ہوا۔ 1962 میں اس کا نام تبدیل کرکے بنیادی جمہوریت رکھا گیا۔ 1969 میں گلگت بلتستان کو علیحدہ انتظامی اکائی کی حیثیت دے کر سرکاری سطح پر شمالی علاقہ جات کا نام دیا گیا۔

1969 میں مشاورتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ دسمبر 1970 میں عام انتخابات کے ذریعے مشاورتی کونسل کے لئے ممبران کا چناؤ عمل میں لایا گیا۔ 1971 میں نادرن ایریاز ایڈوائزری کونسل کونسٹیٹیوشن آرڈر نافذ کرتے ہوئے ایف سی آر اور ایجنسی نظام کا خاتمہ کرکے گلگت اور بلتستان کو الگ الگ اضلاع کا درجہ دیا گیا۔ 1972 میں دیامر اور 1974 میں غذر اور گانچھے کو بھی اضلاع کا درجہ دیا گیا۔

1975 میں نادرن ایریاز کونسل لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت ایڈوائزری کونسل کو ناردرن ایریاز کونسل میں تبدیل کر دیا گیا۔ 1977 سے 1979 تک جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں مشاورتی کونسل معطل رہی پھر چند اصلاحات کے ذریعے ناردرن ایریاز کونسل کے علاوہ لوکل گورنمنٹ آرڈر بھی نافذ کیا گیا۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہی 1981 میں پاکستان سطح پر 350 ارکان پر مشتمل مجلس شوریٰ کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں گلگت بلتستان سے ناردرن ایریاز کونسل کے تین اراکین گلگت سے میر غضنفر علی خان، دیامر سے وزیر محمد افلاطون اور بلتستان سے وزیر غلام مہدی کو بھی شامل کیا گیا۔

1983 میں ناردرن ایریاز کونسل کے لئے چوتھی مرتبہ انتخابات ہوئے۔ 1987 میں ناردرن ایریاز کونسل کے لئے پانچویں مرتبہ انتخابات ہوئے۔ نومبر 1991 میں وفاقی حکومت کی جانب سے ناردرن ایریاز کونسل کے لئے نئی حلقہ بندیاں کی گئیں۔

جون 1994 میں ناردرن ایریاز لیگل فریم ورک آرڈر متعارف کرایا گیا، جس کے تحت این اے کونسل کی نشستیں آبادی کی بنیاد پر تقسیم کی گئیں۔ اس دوران پہلی مرتبہ ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کا عہدہ تخلیق کیا گیا جس کے تحت سید پیر کرم علی شاہ صاحب کونسل کے اولین ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو منتخب ہوگئے۔

جولائی 2000 میں لیگل فریم ورک آرڈر میں ترمیم کے ذریعے ناردرن ایریاز کونسل کو ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل کا درجہ دیا گیا، اسی دوران پہلی مرتبہ اسپیکر کا عہدہ بھی تخلیق کرکے صاحب خان صاحب کو کونسل کا پہلا اسپیکر منتخب کیا گیا۔

2003 میں وفاقی حکومت کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کی بھی منظوری دیدی گئی۔ اکتوبر 2004 میں گلگت بلتستان کی تاریخ کے نویں عام انتخابات میں آزاد امیدواروں کی اکثریت نے کامیابی حاصل کی جنہوں نے حکومت سازی کے لئے مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کی۔

اکتوبر 2007 میں جنرل پرویز مشرف نے ناردرن ایریاز فریم ورک آرڈر 1994 میں ترمیم کرکے ناردرن ایریاز گورننس آرڈر کے تحت ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل کو ناردرن ایریاز قانون ساز اسمبلی کا نام دے کر چیف ایگزیکٹیو کی ذمہ داری وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان سے مقامی لوگوں کو تفویض کی۔ مگر وزیر امور کشمیر کو بلحاظ عہدہ چیرمین ناردرن ایریاز بنا دیا۔

2009 میں صدر آصف علی زرداری نے گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سلف گورننس آرڈر کے تحت مقامی لوگوں کو گورنر، وزیر اعلیٰ اور وزراء کے عہدے دیدیئے۔ اس آرڈر کے تحت گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ساتھ ساتھ سینیٹ طرز کا ایک کونسل بھی بنادیا گیا۔

مئی 2018 میں وفاقی حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سلف گورننس آرڈر 2009 کی جگہ گلگت بلتستان آرڈر 2018 کا اعلان کیا گیا۔ اس آرڈر کے تحت گلگت بلتستان کونسل کو تحلیل کرنے پر رکن کونسل سید افضل صاحب نے اسے سپریم اپیلیٹ کورٹ گلگت بلتستان میں چیلنج کر دیا جس پر عدالتی حکم پر آرڈر کو معطل ہوا۔

تاہم صوبائی حکومت کی جانب سے اس فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کیا گیا جہاں پر عدالتی حکم پر اسی آرڈر میں کچھ ترامیم کے ساتھ گلگت بلتستان ریفارمز آرڈر 2019 کی صورت میں دوبارہ بحال کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).