نیلم ویلی، کشمیر کی جنت کے رنگ


مظفر آباد پہنچے تو شام ڈھل رہی تھی۔ تقریباً آٹھ بجے رات نیلم ویلی کے ایک خوبصورت، پرفضا مقام کیرن کی جانب روانہ ہوئے۔ مظفر آباد سے کیرن تک عموماً تین گھنٹے لگتے ہیں تاہم رات کے وقت ٹریفک نہ ہونے کی وجہ سے ہم ڈھائی گھنٹے میں کیرن پہنچ گئے۔ دریائے نیلم/ کشن گنگا کے کنارے ریسٹ ہاؤس کے سبزہ زار میں رات کے کھانے کا بندوبست تھا۔ بہتے دریا کے پانی کی آواز پس منظر کی موسیقی کا کام کر رہی تھی۔ موسم میں پر لطف ہلکی خنکی تھی۔

تھوڑے تھوڑے فاصلے پہ لگی میزوں پہ لوگ کھانے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہاں بار بی کیو تیار کرنے کا بھی انتظام تھا اور ایک فیملی خود اپنا کھانا تیار کر رہی تھی۔ دریا کے پار ہندوستانی مقبوضہ کشمیر ہے۔ ارد گرد کے گیسٹ ہاؤسز کی رنگین لائٹیں ماحول کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی تھیں۔ دریا کے پار مقبوضہ کشمیر میں چند ہی لائٹیں تھیں، زیادہ تر وہاں اندھیرے کا ہی راج تھا۔

آزاد کشمیر کا سب سے خوبصورت علاقہ، معروف نیلم ویلی بنیادی طور پر تین وادیوں پر مشتمل ہے جن میں کیرن ویلی، شاردہ ویلی اور گریس ( گریز) ویلی شامل ہیں۔ میں پہلی بار تقریباً اڑتیس سال پہلے نیلم ویلی آیا تھا۔ اس وقت کیرن میں دریا کے کنارے صرف ایک سرکاری ریسٹ ہاؤس تھا۔ اب نیلم ویلی میں ہر سال بڑی تعداد میں سیاحوں کی آمد سے نیلم ویلی کے ہر معروف پرفضا مقامات پر گیسٹ ہاؤس قائم ہیں جہاں مناسب قیمت پر اچھے کمرے اور اچھے کھانوں کے ساتھ اچھا ماحول بھی میسر ہے۔ کیرن سے ایک راستہ پہاڑ پہ قائم نیلم نامی گاؤں جاتا ہے، جہاں پہاڑ کے ٹاپ پہ ایک میدان نما علاقہ ہے۔ یہاں بھی متعدد گیسٹ ہاؤس قائم ہیں اور یہ جگہ کراچی کے سیاحوں میں مقبول ہے۔ گرمیوں کے موسم میں نیلم گاؤں ایک عجیب ہی منظر پیش کر تا ہے۔ بالخصوص کراچی کے سیاح بڑی تعداد میں وہاں چھٹیاں گزارنے آتے ہیں۔ نیلم گاؤں کی بلندی سے دریا کے پار مقبوضہ کشمیر کے علاقے کا خوبصورت منظر ہے۔

رہائش کا انتظام ریسٹ ہاؤس کے سامنے ہی قائم ایک خوبصورت ”ٹوئن ہلز ریزارٹ“ نامی گیسٹ ہاؤس میں تھا۔ رات کے وقت گیسٹ ہاؤس میں لگی جامنی رنگ کی لائٹیں خوبصورت لگ رہی تھیں۔ میرے حصے میں ٹاپ فلور، تیسری منزل کا کمرہ آیا۔ نئے تعمیر شدہ صاف ستھرے گیسٹ ہاؤس کے کمرے بھی ہوا دار اور آرام دہ۔ ہر فلور پہ کمروں کے سامنے ٹیرس نما برامندے سے سامنے دریا اور مقبوضہ کشمیر کا علاقہ نظر آتا ہے۔ میں نے خاص طور پر گیسٹ ہاؤس کے کچن میں بھی جا کر دیکھا، صاف ستھرا اور گھر کی طرح کا ہی ماحول۔

اسی ٹیرس پہ صبح کا ناشتہ کیا۔ گیسٹ ہاؤس کے سامنے کی طرف کے کمروں کے ساتھ چھوٹے ٹیرس بنے ہوئے ہیں جہاں بیٹھ کر، خوشگوار اور قوت بخش ہوا میں دیر تک قدرت کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے باوجود دل نہیں بھرتا۔ رات کے وقت کمرے سے ملحقہ اسی ٹیرس میں بیٹھا تھا کہ نیچے سڑک سے بکروال بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ گزرے۔ بکر وال اپنی مخصوص آوازوں سے ریوڑ کی بھیڑ بکریوں کو چلتے رہنے کی ہدایت دے رہے تھے۔ آدھی رات کے وقت بکر والوں کے بڑے قافلے پرکشش منظر پیش کر رہے تھے۔

اگلی صبح شاردہ کی طرف روانہ ہوئے۔ کیرن سے شاردہ تقریباً 36 کلومیٹر فاصلے پہ ہے اور یہ سفر تقریبادو گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ شاردہ میں بھی نیلم ویلی کے دوسرے مقامات کی طرح کافی تبدیلی آ گئی ہے۔ بازار بڑے ہوگئے ہیں، سیاحوں کی رہائش کے لئے بہت سے گیسٹ ہاؤس، ہوٹل قائم ہیں۔ دریائے نیلم پر نصب لوہے کے رسوں اور لکڑی کے تختوں والے پل کو گاڑی پہ ہی عبور کر کے جنگلات کے ریسٹ ہاؤس پہنچے۔ ریسٹ ہاؤس کی عمارت دیکھ کر میں حیران ہوا۔

یہاں پہلے لکڑی کا خوبصورت ریسٹ ہاؤس ہوتا تھا۔ اب اس کی جگہ پکی عمارت موجود ہے۔ دریا کے ساتھ ذرا بلندی پہ قائم اس ریسٹ ہاؤس کے سامنے ایک خوبصورت لان ہے جہاں سے سامنے کی طرف نیلم/کشن گنگا اپنی وسعت اور گہرائی میں ایک جھیل کی مانند محسوس ہوتا ہے۔ پل کے دائیں جانب چند موٹر بوٹس اور سکوٹر بوٹس موجود ہیں جن پہ سیاحت کے لئے آنے والے دریا کی سیر کرتے ہیں۔ انہی موٹر بوٹس کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا نالہ پہاڑ کی جانب سے آتے ہوئے نیلم/کشن گنگا میں شامل ہو جاتا ہے۔ پہاڑ کی جانب کچھ ہی فاصلے پہ مدھو متی نامی اس نالے کے ساتھ ہی ایک قدیم بدھ، ہندو مت کی یونیورسٹی، مندرکاکھنڈر موجود ہے۔

نالہ مدھو متی کے عقب میں دو پہاڑی چوٹیاں ہیں جن میں سے ایک کا نام ناردہ اور دوسری کا نام شاردہ ہے۔ ناردہ پہاڑ کے اوپر ایک چھوٹی جھیل بھی موجود ہے۔ وہاں تک جانے کا کوئی باقاعدہ راستہ نہیں، بہت مشکل چڑھائی والا طویل اور خراب راستہ ہے۔ وہاں بھی آثار قدیمہ کے آثار موجود ہیں۔ دریا کے دوسرے جانب ایک بڑا نالہ سرگن، جس کا قدیمی نام سرسوتی ہے، دریا میں شامل ہوتا ہے۔

فارسٹ ریسٹ ہاؤس میں دوپہر کے کھانے کے بعد اگلے مقام کیل کی جانب روانہ ہوئے۔ شاردہ سے کیل تقریباً 21 کلومیٹر فاصلے پہ ہے اور یہ سفر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ ایک مقام سے دوسرے مقام تک سفر کرتے ہوئے بعض اوقات زیادہ وقت بھی لگ جاتا ہے کیونکہ راستے میں آنے والے خوبصورت مناظر، پہاڑ سے بہہ کر آنے والے پانی کے جھرنے سیاحوں کو کچھ دیر کے لئے رکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ کیل سے پہلے ہی مارگلہ نامی ایک خوبصورت نالہ پہاڑ کی بلندی سے بہتا ہوا دریا کی جانب آتا ہے۔ مارگلہ نالے کا خوبصورت پانی سیاحوں کو رکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہاں ایک ہائیڈرل پاور پروجیکٹ بھی زیر تعمیر ہے۔

کیل پہنچتے ہی ہم اڑنگ کیل کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ تک ایک الیکٹرک چیئر لفٹ لگائی گئی ہے۔ لوگ اس پہ سوار ہو کر دوسرے پہاڑ تک پہنچتے ہیں اور وہاں سے پیدل چڑھائی چڑھتے ہوئے تقریباً آدھے گھنٹے میں پہاڑ کے ٹاپ پہ واقع میدانی علاقے اڑنگ کیل پہنچتے ہیں۔ یہاں سے اوپر جانے کے لئے گھوڑے بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں جو جنگل کی ایک پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے اڑنگ کیل پہنچتے ہیں۔ اپنی استطاعت دیکھتے ہوئے گھوڑے پہ سوار ہو کر اڑنگ کیل پہنچے کا انتخاب کیا۔

گھوڑا گھنے جنگل کے درمیان ایک پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے چڑھائی چڑھنے لگا۔ گھوڑے کا نوجوان مالک گھوڑے کی رسی پکڑے آگے چلتا رہا۔ اڑنگ کیل اپنی خوبصورتی کی وجہ سے سیاحوں میں مقبول ہے۔ اڑنگ کیل میں تقریباً تین سو سے چار سو لکڑی سے بنے گھر ہیں اور وہاں رہنے والوں کا تعلق ایک ہی خاندان (مغل) سے ہے۔ اڑنگ کیل میں بھی سیاحوں کے لئے گیسٹ ہاؤس اور ہوٹل قائم ہیں۔ اڑنگ کیل میں کافی تعداد میں سیاح نظر آئے۔

کسی وقت اڑنگ کیل میں وسیع میدان تھا جہاں اب مزید مکانات بن چکے ہیں۔ تاہم اب بھی کافی حصے گھاس کے میدان پر مشتمل ہیں۔ اڑنگ کیل سے واپسی پیدل ہی ہوئی کیونکہ اترائی کے سفر میں مشکل نہ تھی۔ واپسی کے اس سفر میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ سیاح کافی تعداد میں چڑھائی چڑھتے ہوئے اڑنگ کیل جا رہے تھے۔ ان میں بچے کے علاوہ خواتین بھی شامل تھیں۔ چیئر لفٹ پہ سوا ر ہو کر واپس دوسری جانب پہنچے۔ اسی مقام پہ پاک فوج کے شہداء کی ایک یاد گار بھی قائم ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاک فوج کی طرف سے آرمی پبلک سکول / کالج زیر تعمیر ہے اور توقع ہے کہ جلد ہی یہ سکول / کالج کام شروع کر دے گا۔ نیلم ویلی کے بالائی علاقے میں قائم کیا جانے والا یہ سکول / کالج علاقے کی ترقی کے حوالے سے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔

کیل میں رات قیام کے بعد ہماری اگلی منزل نیلم ویلی کا آخری مقام تاؤ بٹ تھا۔ کیل سے سرداری نامی گاؤں تک سڑک کی توسیع اور تعمیر کا کام جاری ہے۔ جانوئی کے فارسٹ ریسٹ ہاؤس میں چائے پینے کے بعد آگے روانہ ہوئے۔ پھلوئی، سوناری، سرداری کے بعد ہلمت پہنچے تو آرمی کی چک پوسٹ سے معلوم ہوا کہ ہندوستانی فوج کی طرف سے گولہ باری کی جارہی ہے، اس لئے آگے کا راستہ بند کیا گیا ہے۔ ہم ساتھ ہی واقع ایک پہاڑی پہ واقع ہلمت کے فارسٹ ریسٹ ہاؤس جا کر گولہ باری بند ہونے کا انتظار کرنے لگے۔

وہاں بھی ہندوستانی فوج کے گولہ باری کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ہم ریسٹ ہاؤس کے سامنے وسیع گھاس کے میدان میں بیٹھ گئے اور وہاں ہی چائے پی۔ دریا کے پار سامنے کی جانب بلند دو پہاڑوں کے درمیان جنگل سے دھواں اٹھتے نظر آیا۔ وہاں انڈین فوج کے دو گولے گرے تھے۔ تقریباً دو گھنٹے انتظار کے بعد گولہ باری بند ہونے کی اطلاع ملی تو ہم تاؤبٹ کی جانب روانہ ہو گئے۔ یہیں معلوم ہوا کہ ہندوستانی فوج کی فائرنگ کی وجہ سے بکر والوں کے قافلے قبل از وقت پنجاب کی میدانی علاقوں کی طرف رخ کر رہے ہیں۔

نیکرو اور کریم آباد کے دیہاتوں کے بعد آخر ہم شام کے وقت تاؤ بٹ پہنچ گئے۔ تاؤ بٹ کے شروع میں ہی دریا کے پار جانے کے لئے ایک پیدل پل نصب ہے اور دوسری جانب متعدد گیسٹ ہاؤس موجو د ہیں۔ اس پل پہ ہدایت تحریر ہے کہ ایک وقت میں ایک آدمی گزرے۔ ہم نے اگلے آدمی سے زیادہ فاصلہ رکھتے ہوئے پل عبور کرنا شروع کیا تو پل کبھی اوپر نیچے اور کبھی دائیں، بائیں ہلنے لگا۔ اس ناچتے پل کو عبور کرنے کے حوالے سے چند شخصیات کے دلچسپ قصے بھی سنے میں آئے۔

پل کے پار اس علاقے کو ”تاؤ بٹ پار“ کہا جاتا ہے۔ گیسٹ ہاؤسز کے آگے، دریا کے ساتھ ایک بڑا میدان اور عقب میں گھنا جنگل۔ کئی درخت ایسے کہ تاج پہنے محسوس ہوتے ہیں۔ یہاں سے دریا کے آر پار آنے جانے کے لئے لوہے کے رسے کی ایک چھوٹی سی مینول لفٹ بھی نصب ہے جس میں ایک وقت میں دو افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ اس جگہ کی خوبصورتی اپنی مثال آپ ہے۔

تاؤ بٹ کے گاؤں داخل ہوئے تو ایک منفرد منظر ہمارے سامنے تھا۔ یہاں گگئی نالہ نیلم/ کشن گنگا میں جا ملتا ہے۔ تاؤ بٹ سے تقریباً ایک، ڈیڑھ کلو میٹر آگے کی طرف دود گئی نامی نالہ گگئی نالے میں گرتا ہے۔ تاؤ بٹ میں ٹراؤٹ مچھلی کا ایک ہیچری فارم قائم ہے۔ تاؤ بٹ کی خوبصورتی ایک منفرد انداز رکھتی ہے۔ تاؤ بٹ میں بھی کئی گیسٹ ہاؤس قائم ہیں۔ یہاں کا فارسٹ ریسٹ ہاؤس مکمل طور پر لکڑی سے بنا ہوا ہے۔ دریا کے ساتھ ذرا بلندی پہ قائم چند سال قبل تعمیر کردہ ریسٹ ہاؤس اور اس کے سامنے گھاس کا لان علاقے کے حسن میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔

یہاں کا سکون بخش ماحول اورخنکی مائل فرحت بخش ہوا انسان کو ایک مختلف کیفیت میں لے جاتی ہے۔ اگلی صبح واپس شاردہ کی جانب سفر شروع ہوا۔ گاڑی نے ریسٹ ہاؤس سے واپسی کا سفر شروع کیا تو ارد گرد کے خوبصورت مناظر کو دیکھنے کو ملے۔ تاؤ بٹ کے عقب سے بہتا ہوا گگئی نالہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ میرا تو تاؤ بٹ سے واپس آنے کا بالکل بھی دل نہیں کر رہا تھا۔

شاردہ کے مقام سے نالہ سرگن ( مدھو متی) کے ساتھ ایک راستہ کاغان کی طرف جاتا ہے جو درہ نوری ناڑ عبور کر کے کاغان کے علاقے جل کھڈ جا نکلتا ہے۔ شاردہ سے جل کھڈ تک تقریباً 49 کلومیٹر کا سفر تقریباً پانچ گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ شاردہ سے جاتے ہوئے پانچ چھ کلومیٹر فاصلے پہ آزاد کشمیر کی آخری آبادی سرگن نامی گاؤں ہے جہاں تک سڑک پختہ ہے، اس کے بعد کچہ اور پتھریلا راستہ ہے۔ نوری ناڑ درے کی بلندی بارہ ہزار نو سو اٹھاسی فٹ ( 3.959 میٹر) ہے۔

یہ درہ آزاد کشمیر اوروادی کاغان خیبر پختون خواہ ( کے پی کے ) کی حدود ہے۔ نوری ناڑ ٹاپ پہ سڑک کی بائیں جانب ایک بڑی چٹان کے اوپر آزاد کشمیر سے متعلق تحریر سے آزاد کشمیر کی حد کا علم ہوتا ہے۔ بلندی میں اضافے کے ساتھ ہی پہاڑوں پہ درخت، پودے ختم ہو گئے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پہ برف کے تودے پڑے نظر آئے جن میں سے بہتا پانی اترائی کی جانب سفر کر رہا تھا۔ نوری ناڑ درہ شروع ہونے سے پہلے کے علاقوں سے برفانی تودوں کا پانی نالہ سرگن کی صورت اختیار کرتے ہوئے شاردہ آزاد کشمیر کا رخ کر رہا تھا جبکہ درے کے آگے کے علاقے کے برفانی تودوں سے بہتے پانی کی منزل کاغان کا دریائے کنہار (دریائے کاغان) ہے۔

نوری ناڑ درہ عبور کرتے ہی دائیں، بائیں کے پہاڑوں کے درمیان وادی نما جگہ میں، نہتے نالے کے ساتھ کوہستانی ریوڑ بان نظر آنے لگے۔ کچھ اور آگے گئے تو کئی جگہ چھوٹے چھوٹے کھیت نظر آئے جن میں مٹر اگائے گئے تھے۔ چند جگہوں پر کاشتکار مٹر کی بوریاں بھر کر سڑک کنارے جیپ آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ کاغان میں آلو اور مٹر بڑی مقدار میں پیدا کیا جا تا ہے۔

نوری ناڑ ٹاپ روڈ جل کھڈ کے مقام پہ بابو سر ٹاپ، ناران جانے والی مین روڈ سے ملتی ہے۔ یہاں سے دائیں طرف لولو سر جھیل اور بابو سر ٹاپ کی طرف راستہ جاتا ہے۔ بابو سر ٹاپ کا علاقہ گلگت بلتستان کے علاقے چلاس کی حدود میں آتا ہے۔ جبکہ بائیں جانب ناران، بالا کوٹ کی طرف راستہ جاتا ہے۔ لولو سر جھیل اور بابو سرٹاپ سے ہو کر ناران کی جانب سفر شروع ہوا۔ ناران پہنچ کرحیرانی اور افسوس ہوا کہ اس کا ماحول اور فضا بھی تبدیل ہو چکی ہے۔

ناران میں بڑی تعداد میں کئی کئی منزلہ ہوٹل اور وسیع بازار قائم ہو چکے ہیں اور وہاں راجہ بازار کی طرح گاڑیوں کی ٹریفک کا رش رہتا ہے۔ ناران سے کچھ آگے ایک ہوٹل میں کچھ دیر رکنے کے بعد دوبارہ بالا کوٹ، گڑھی حبیب اللہ کے راستے مظفر آباد کی جانب روانہ ہوئے۔ رات تقریباً ایک بجے مظفر آباد پہنچے۔ اگلے روز واپس راولپنڈی کا سفر اور یوں چند روز کا ایک یادگار تفریحی ٹور مکمل ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).