انٹی منی لانڈرنگ بل، اپوزیشن کی بلبلاہٹ اور حکومت کی چالاکی


گزشتہ دنوں حکومت پاکستان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں انٹی منی لانڈرنگ بل اکثریت کے ساتھ منظور کروا لیا۔ اس بل کی پارلیمنٹ سے منظوری دراصل حکومت کی مجبوری تھی کہ اقوام متحدہ کے ادارے ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو اپنی گرے لسٹ میں ڈال رکھا تھا۔ جس سے نکلنا پاکستان کو ہر حال میں ممکن اس لئے بنانا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت ایسا فعل نہ دکھاتی تو ہو سکتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف اپنے آئندہ ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال کر بلیک لسٹ میں شامل کر دیتا جس کا سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوتا کہ پاکستان کا منفی تاثر بین الاقوامی سطح پر پیش ہوتا اور دوسرا یہ کہ مختلف اداروں سے ملنے والی امداد بھی تعطل کا شکار ہو سکتی تھی۔

ایک لحاظ سے مجموعی طور پر بلیک لسٹ میں شامل کیے جانے سے پاکستان کو کافی عرصہ تک نقصان اٹھانا پڑتا۔ اجلاس میں ہونے والے فیصلہ سے باخبر کرنے سے قبل میں چاہتا ہوں کہ اپنے قارئین کو ایف اے ٹی ایف کے بارے میں مختصر سا تعارف پیش کردوں تاکہ انہیں یہ جاننے میں آسانی ہو سکے کہ اگر ہم یہ تاثر دنیا کے سامنے پیش نہ کرتے تو ہمیں کیا نقصانات ہو سکتے تھے۔

ایف اے ٹی ایف کا قیام 1989 میں عمل میں آیا۔ 2019 تک اس تنظیم کے اراکین کی تعداد انتالیس تھی۔ اس تنظیم کا مقصد دنیا میں مختلف ممالک کے درمیان ہونے والی معاشی برائی منی لانڈرنگ کی روک تھام ہے اور اسی بنا پر یہ تنظیم تعاون نہ کرنے والے ممالک کو بلیک لسٹ میں شامل کر دیتے ہیں اور جن ممالک کو زیر مشاہدہ رکھا ہوا ہوتا ہے انہیں گرے لسٹ میں رکھا جاتا ہے اور جس پر مکمل اعتماد ہو اسے وائٹ لسٹ میں شامل کر دیا جاتا ہے تاکہ دنیا کے کم از کم وہ ممالک جنہوں نے اس قانون پر دستخط کر رکھے ہیں اس ملک کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس تنظیم کو تعاون نہ کرنے والے ممالک کو بلیک لسٹ میں کیوں شامل کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں دو دہائی پیچھے تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ ہوا یوں کہ جب نائن الیون کا واقعہ پیش ہوا تو اقوام متحدہ کے ادارے سیکیورٹی کونسل نے دو قراردادیں منظور کیں ایک قرارداد 1373 جبکہ دوسری قرارداد 1267 پاکستان نے ان دونوں قراردادوں پر دستخط کر رکھے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس تنظیم کے تمام قواعد و ضوابط کا پابند رہنا پاکستان کا اخلاقی و قانونی فرض ہے۔

9 / 11 نے دراصل پوری دنیا کی فضا کو تبدیل کر دیا تھا خاص کر اس کا اثر پاکستان اور افغانستان پر بہت ہوا۔ کیونکہ یہ وہ دور تھا جب پاکستان اور افغانستان پر بھی دہشت گردی کے سائے منڈلا رہے تھے تو ایسے میں پاکستان کا ان قراردادوں پر دستخط کرنا بنتا بھی تھا۔ 1267 قرارداد میں دو شقیں تھیں جن پر ہر اس ملک نے عمل کرنا تھا جس نے ان اس قرارداد پہ دستخط کر رکھے تھے۔ ایک دہشت گردی کو فنڈز کی فراہمی اور دوسرا انٹی منی لانڈرنگ۔

چونکہ ممبر ممالک پر ان کی پابندی لازم تھی تو پاکستان کو بھی ان دونوں برائیوں کی روک تھام میں ایف اے ٹی ایف کے ساتھ تعاون کرنا لازم تھا۔ اور پاکستان نے ان دونوں پر عمل پیرائی کی بھی لیکن کیا ہوا کہ مختلف مسائل کی بنا پر منی لانڈرنگ کے قانون پر پابندی کا کام تھوڑا سست پڑ گیا، جس کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کر رکھا تھا۔

مذکور دونوں باتوں پر عمل پیرائی کی بہت سی وجوہات تھیں جن میں سے چیدہ چیدہ کا تذکرہ کرنا ضروری ہے۔ بیوروکریسی کا تعاون نہ کرنا۔ سیاستدانوں کی من مانیاں، فیوڈل اور وڈیروں کا پیسہ بیرون ملک غیر قانونی طریقے سے منتقل کرنا، منی لانڈرنگ کے لئے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنا کہ جس سے ملک کا وقار مجروح ہو یعنی شوبز کی خواتین تک کو اس سلسلہ میں استعمال کیا گیا۔ لیکن قانون کی گرفت میں تو ہمیشہ کمزور ہی آیا کرتے ہیں جیسا کہ ایک قدیم یونانی فلسفی نے کہا تھا کہ ”قانون کی نظر میں سب برابر ہیں یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں صرف کیڑے مکوڑے پھنستے ہیں لیکن بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں“ ۔

چونکہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی جانب سے گرے لسٹ میں شامل کیا ہوا تھا اور آئندہ اجلاس میں عین ممکن تھا کہ تعاون نہ کرنے والے ممالک کی لسٹ میں شامل کر کے پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا جاتا جس کا خدشہ بھی تھا۔ حکومت پاکستان نے اس سلسلہ میں حزب اختلاف سے استدعا کی کہ وہ ملکی وقار اور سالمیت کی خاطر ان کا ساتھ دے اور اسمبلی میں مذکور دونوں باتوں کے خلاف ایک بل پیش پاس کروا کے ایف اے ٹی ایف کو دکھایا جائے کہ ہمارا ملک اس سلسلہ میں قانون سازی کر رہا ہے اس لئے ہمیں گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں شامل کیا جائے لیکن حزب اختلاف نے ایسی شرائط رکھ دیں کہ جس سے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ یہ بل حکومت پاکستان کبھی بھی پاس نہیں کروا پائے گی اور نتیجہ میں پاکستان کو بلیک لسٹ کر دیا جائے۔

ان شرائط کو اگر آپ بھی پڑھ لیں تو کانوں کو ہاتھ لگائیں گے کہ یہ کون سے محب وطن ہیں جو اپنی کرپشن کو لیگل کرنے کے جواز تلاش کر رہے ہیں جیسا کہ ایک ارب روپے سے کم کی کرپشن کے بارے میں کسی قسم کی کوئی جانچ پڑتال نی کی جائے یعنی کہ اسے جائز قرار دے دیا جائے، دوسری بات یہ کہ 99 سے قبل کے تمام کیسز کو ختم کر دیا جائے اور تیسری اہم بات کہ کسی بھی سیاستدان کو پکڑا نہ جائے۔ اگر حکومت نہیں مانتی تو ان کے ساتھ تعاون نہ کیا جائے کہ ایسا کرنے سے نہ صرف یہ کہ عمران حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ پاکستان کی معاشی مسائل بھی بڑھ جائیں گے۔

عمران خان حکومت کو گرانے کے لئے ہی اس بل کو ایوان بالا میں دو بار مسترد بھی کیا گیا۔ اور اپوزیشن کا خیال یہ تھا کہ اب اس بل کو منظور کروانا ناممکن ہوگا لیکن عمران خان نے ہوم ورک مکمل کیا ہوا تھا، اس نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا یا اور اس میں اس بل کو منظوری کے لئے پیش کر دیا جسے کہ اپوزیشن کی برتری کے باوجود منظور کر لیا گیا۔ اب جبکہ بل منظور ہو چکا ہے تو حزب اختلاف سیخ پا اور چیخیں مار رہی ہے کہ یہ بل دراصل اپوزیشن کے خلاف نہیں ہے بلکہ ملکی مفادات کے خلاف ہے۔

حزب اختلاف نہ صرف اس پر خوف زدہ ہے بلکہ بلبلا رہی ہے۔ کیونکہ پی ٹی آئی تو پہلی مرتبہ حکومت میں آئی ہے جبکہ دونوں بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور نون لیگ تو ایک سے زائد بار حکومت کر چکی ہیں اس لئے انٹی منی لانڈرنگ میں ان کے لوگوں کا نام خاص کر ان کے راہنماؤں کا نام زیادہ آنے کی توقعات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کل سے محلہ سے محلات تک اور دکانوں سے ایوانوں تک اس بل کے بارے میں اپوزیشن کی بلبلاہٹ صاف سنائی دی جا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).