پھولوں کا کیا ہو گا؟
سنا ہے
تتلیوں پر پھر کوئی حد جاری ہوتی ہے
اگر گل قند ہی شہد کی سب مکھیوں کے گھر پہنچ جائے
تو ان کو گل بہ گل آوارہ گردی کی ہے حاجت کیا
ہوا کی چال بھی کچھ نامناسب ہوتی جاتی ہے
سو تتلی اور مکھی اور ہوا
نا محرموں سے دور رکھی جارہی ہیں
مگر یہ بھی کوئی سوچے
کہ پھر پھولوں کا کیا ہوگا
چمن میں ایسے کتنے پھول ہوں گے
کہ جو خود وصل اور خود بار آور ہوں!
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پروین شاکر کی مندرجہ بالا نظم ”سائنسی“ نظم، پھولوں کی بارآوری میں مکھی، تتلی اور ہوا کا کردار بطریق احسن بیان کرتی ہے۔ شاعرہ کی تشویش، نظم کے عنوان ”پھولوں کا کیا ہو گا؟“ سے عیاں ہے کہ اندریں حالات تتلی، مکھی اور ہوا پر بندشوں کا سارا نقصان پھولوں کو ہو گا جنھیں بارآوری کے لیے خود پر انحصار کرنا پڑے گا۔ ایک حالیہ تحقیق، اس نقصان میں آلودہ ہوا کو بھی مورود الزام ٹھہراتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق، فصلوں کی پیداوار کا پینتیس فیصد، جانوروں کے ذریعے بارآوری پر انحصار کرتا ہے۔ حشرات خاص طور پر شہد کی مکھیاں، جب پھولوں کی سیر کو آتے ہیں تو پھول اپنے رس سے ان کی خاطر تواضع کرتے ہیں۔ بدلے میں حشرات، پھولوں سے زر گل (پولن) دوسرے پھولوں تک پہنچاتے ہیں۔ پھولوں کے بیچ زرگل کا یہ انتقال، پودوں کی بقا اور افزائش نسل کے لیے بے انتہا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہد کی مکھیاں اور دیگر حشرات، فصلوں کی پیداوار کی صورت میں، عالمی معیشت میں 150 ارب ڈالر کا حصہ ڈالتے ہیں۔
تاہم حالیہ سالوں میں شہد کی مکھیوں کی آبادی میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ جس میں باقی عناصر کے ساتھ آلودگی کا بھی حصہ ہے۔ غیر معیاری ایندھن، گاڑیوں کی ابتر حالت، فصلوں کی باقیات کے جلاؤ، اور شہروں کی بڑھتی آبادی کی وجہ سے، ترقی یافتہ ممالک میں فضائی آلودگی میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، دنیا میں دس میں سے نو افراد آلودہ اور مضر صحت ہوا میں سانس لیتے ہیں۔ فضائی آلودگی، سانس اور دل کی بیماریوں کا باعث بن کر سالانہ 7 ملین افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔
فضائی آلودگی میں بڑا حصہ ٹھوس ذرات کا ہے جن کو ان کے حجم کی بنیاد پر دو گروہوں میں بانٹا گیا ہے۔ پی ایم۔ 10 اور پی ایم۔ 2.5 وہ ذرات ہیں جن کا حجم بالترتیب 10 اور 2.5 مائیکرون (میٹر کا ایک لاکھواں حصہ) ہے۔ یہ دونوں ذرات قابل تنفس ہونے کی وجہ سے سانس، دل اور دیگر بیماریوں کی بڑی وجہ ہیں۔ ذرات کے علاوہ فضا میں گیسیں جیسا کہ کاربن، سلفر اور نائٹروجن کے آکسائیڈز اور اوزون آلودگی کی وجہ ہیں۔ تاہم آلودہ ذرات اور گیسوں کا، انسان کے علاوہ دیگر جانداروں پر اثر پر بہت کم تحقیق کی گئی ہے۔
پھول، حشرات کو متوجہ کرنے کے لیے خوشبو دار کیمیائی مرکبات خارج کرتے ہیں۔ ہوا میں موجود آلودگی مثلاً اوزون ان مرکبات کی توڑ پھوڑ کا باعث بنتی ہے۔ حشرات، خوراک، شریک حیات، رہائش کی تلاش اور شکاریوں سے بچنے کے لیے کیمیائی مرکبات خارج کرتے ہیں جو فضا میں موجود آلودگی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ یوں حشرات کی عمومی زندگی مسائل کا شکار ہوتی ہے۔
حال ہی میں امریکی سائنسی جریدے (پناس) میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں ہندوستان کے سائنس دانوں نے پی ایم۔ 10 کا شہد کی مکھیوں پر اثرات کا مقداری تجزیہ کیا۔ محققین نے کم، درمیانی اور زیادہ آلودہ علاقوں میں شہد کی بڑی مکھیوں پر اپنے مشاہدات اور تجربات رقم کیے۔ سائنس دانوں نے مشاہدہ کیا کہ زیادہ آلودہ مقامات کے مقابلے میں، کم آلودہ مقامات پر پھولوں کی سیر کو آنے والی مکھیوں کی تعداد دگنی تھی۔ پھولوں پر آنے والی مکھیوں کی تعداد میں کمی کا مطلب، کم بارآوری اور کم پیداوار ہے۔
چمن میں ایسے کتنے پھول ہوں گے
کہ جو خود وصل اور خود بار آور ہوں!
درمیانی اور زیادہ آلودہ جگہوں سے تجربہ گاہ میں لائی جانی والی 80 فیصد مکھیاں جان کی بازی ہار گئیں۔ جبکہ کم آلودہ جگہوں سے لائی جانے والی مکھیاں محفوظ رہیں۔
سائنس دانوں نے مکھیوں کے بیرونی ڈھانچے (پر، ٹانگیں اور انٹینا) پر آلودگی کے اثرات کا بھی مطالعہ کیا۔ بیرونی ڈھانچے کو مکھیاں سانس لینے، پانی کے ضیاع کو روکنے اور کیمیائی سگنلز (فرمونز) کو موصول کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
الیکٹرانی خوردبین کے نیچے مشاہدہ کرنے پر معلوم ہوا کہ زیادہ آلودہ مقامات سے لائی جانے والی مکھیوں کے بیرونی ڈھانچے کا زیادہ حصہ ٹھوس ذرات سے اٹا ہوا تھا۔ ان ذرات کے تجزیے سے ان میں بھاری دھاتیں جیسا کہ سنکھیا (آرسینک) ، سیسہ (لیڈ) اور دیگر پائی گئی جو کہ انسانوں، غیر فقاریہ جانوروں اور حشرات کے لیے نقصان دہ ہیں۔
آلودہ مقامات سے لائی جانے والی مکھیوں میں نہ صرف خون کے خلیوں کی کمی دیکھنے میں آئی بلکہ ان مکھیوں کے دلوں کی دھڑکن بھی بے ترتیب تھی۔ علاوہ ازیں، ذہنی دباو، قوت مدافعت اور میٹابولزم کے ذمہ دار جینز کا اظہار بھی مشاہدے میں آیا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آلودگی سے نہ صرف شہد کی مکھیاں پھولوں کی سیر کو کم کم آتی ہیں بلکہ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔
کورونا وائرس کی شکل میں عالمی وبا اور اس کے نتیجے میں ہونے والے لاک ڈاؤن سے، عالمی سطح پر شہد کی مکھیوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جسے عالمی ماہرین فصلوں کی پیداوار کے لیے خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔
- ویلنٹائین ڈے، محبت اور سائنس - 15/02/2024
- سرمہ، کاجل، قاتل نین اور سائنس - 24/04/2022
- کیا ”ویکسین“ لگنے سے ہم لوگ مر جائیں گے؟ - 30/05/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).