بھونکتے، کاٹتے کتے


یہ لطیفہ غالباً صدر ایوب کے زمانے کا تھا۔ ایک پاکستانی کتا سرحد پار کر کے انڈیا جا نکلا اور اس کی ملاقات ایک انڈین کتے سے ہوئی۔ انڈین کتا جو نحیف و نزار تھا، پاکستانی کتے کی صحت سے بڑا مرعوب ہوا۔ ایک دوسرے کے حالات پوچھے اور انڈین کتے کو پاکستان کی خوشحالی کا سن کر اپنی حالت پر بڑا افسوس ہوا۔ پاکستانی کتے سے پوچھا کہ ایسے اچھے ملک کو چھوڑ کر ادھر کیوں آ گئے؟ پاکستانی کتے نے جواب دیا کہ وہاں کھانے کو تو بہت ملتا ہے، پر بھونکنے کی آزادی نہیں۔

اس میں شک نہیں کہ ان دنوں پاکستان میں انڈیا کے مقابلے میں غربت کم تھی۔ اقتصادی ترقی بھی ہو رہی تھی لیکن اس میں استقلال نہیں تھا۔ چند سال خوب گروتھ ہوتی لیکن اگلے کئی خراب سال اس ترقی کے ثمرات کو چٹ کر جاتے۔ بالکل حضرت یوسفؑ کے خواب کے موافق۔ اس کی بڑی بلکہ واحد وجہ سیاسی عدم استحکام تھی۔ ہر ڈکٹیٹر کے ابتدائی چند سالوں کے دوران خوب استحکام رہتا لیکن رفتہ رفتہ حالات اس کے ہاتھ سے نکلتے جاتے اور اس کے رخصت ہونے تک سب کچھ بکھر جاتا۔ نیا ڈکٹیٹر یا منتخب حکمران سب کچھ نئے سرے سے شروع کرتا۔ اس کے مقابلے میں انڈیا میں انتقال اقتدار اپنے مقررہ وقت پر پرسکون انداز میں ہوجاتا اور استحکام میں فرق نہ آتا۔ اب اگر ہمارا کتا سرحد پر انڈین کتے سے ملے گا تو شاید بھونکنے کی پابندی کے علاوہ بھوک کی شکایت بھی کرے گا۔

اس سارے عرصے کے دوران ہمارے حکمرانوں کی زیادہ تر توجہ کتوں کو بھونکنے سے روکنے پر رہی۔ ان کو چپ کرانے کے لیے ڈنڈے کے استعمال کے علاوہ ادھر ادھر سے قرض اور بھیک مانگ کر انہیں کھلایا بھی جاتا رہا۔ اب اس کی گنجائش بھی ختم ہو رہی ہے۔ کتے بھونکتے ہیں تو ان کو کھلانے کو کچھ نہیں۔ خالی ڈنڈے سے کب تک کام چلے گا۔ پیٹ بھرا کتا باہر والوں پر بھونکتا ہے۔ لیکن بھوکا ہو تو اس کے غصے کا رخ مالک کی طرف بھی ہو سکتا ہے۔ یہ مقولہ بھی شاید زیادہ کارآمد نہ ہو کہ ”بھونکنے والے کتے کاٹا نہیں کرتے“ ۔ کیونکہ بقول پطرس ”کون جانتا ہے، کہ ایک بھونکتا ہوا کتا کب بھونکنا بند کردے، اور کاٹنا شروع کردے“ ۔

اب ہمارے ہاں حکمت عملی یہ ہے کہ کتوں کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ ان کو باہر سے خطرہ ہے۔ اس طرح ان کے بھونکنے کا رخ باہر کی طرف ہوگا اور اندر سکون رہے گا۔ اگر کوئی نامعقول کتا اندر کی طرف رخ کر کے بھونکنے کی جرات کرے تو اس کے پٹے میں زنجیر ڈال دی جائے۔

ممتاز حسین، چترال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ممتاز حسین، چترال

ممتاز حسین پاکستان کی علاقائی ثقافتوں اور زبانوں پر لکھتے ہیں ۔ پاکستان کے شمالی خطے کی تاریخ، ثقافت اور زبانوں پر ایک ویب سائٹ کا اہتمام کیے ہوئے ہے جس کا نام makraka.com ہے۔

mumtaz-hussain has 11 posts and counting.See all posts by mumtaz-hussain