میاں گلاب جامن کی کہانی!


مٹھائیاں کس کو پسند نہیں ہوتی؟ تقریباً ہر شخص ہی مٹھائیوں کا شوقین ہوتا ہے کیونکہ مٹھائی لذت کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ آپ کی خوشیوں کو بھی دوبالا کرتی ہے۔ جی ہاں! اسی لیے تو شادی بیاہ ہو یا ہو عید کا سماء یا پھر ہو خوشی کا کوئی موقع مٹھائیوں کے بغیر پھکی پڑ جاتی ہے، جبکہ بیشتر میٹھے کے شوقین افراد تو کسی خوشی اور تہوار کے منتظر بھی نہیں رہتے ان کا جب دل مچلتا ہے فوراً کہتے ہیں۔ کیوں نہ کچھ میٹھا ہو جائے، یہی وجہ ہے کہ ہماری آبادی کی اکثریت کھانا کھانے کے بعد منہ میٹھا ضرور کر لیتے ہیں۔ پاکستان میں کئی اقسام کی مٹھائیاں بنتی ہیں جن میں برفی، جلیبی، گلاب جامن، چھم چھم، رس ملائی، بالو شاہی، رس گلا اور دیگر لاتعداد نام موجود ہیں جس کو سنتے ہی آپ کے منہ میں میٹھا سا ذائقہ آ جاتا ہے۔

گزشتہ سال ( 2019 ء (کے آغاز میں نئے پاکستان نے کچھ نیا کر دکھایا، پاکستان کے آفیشل ٹویٹر اکاونٹ پر ایک پول کیا گیا جس میں صارفین سے پوچھا گیا پاکستان کی قومی مٹھائی کون سی ہے؟ پول میں جلیبی، برفی اور گلاب جامن کے آپشنز رکھے گئے تھے۔ جس کے لیے تقریباً 15,000 سے زائد عوام نے ووٹ ڈالے اور گلاب جامن کو 47 فیصد ووٹ ملے، جلیبی کو 34 فیصد اور برفی کو 19 فیصد ووٹ ملے۔ یوں سب سے زیادہ ووٹ ملنے پر گلاب جامن کو قومی مٹھائی کا اعزاز دیا گیا۔

کیا آپ جانتے ہیں اس مزیدار گلاب جامن کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟ نہیں ناں! تو چلیں آج ہم آپ کو بتاتے ہیں۔ گلاب جامن کو پہلی بار مغلیہ دور میں بنایا گیا تھا، کہا جاتا ہے کہ شاہ جہاں کے خاص خانسماں نے غلطی سے کچھ اجزا کاملاپ کیا اور یوں اس جنت کے میٹھے کو سر زمین کی پہچان بنایا لیکن باز جگہ بتایا جاتا ہے کہ ان ذائقہ دار گلاب جامن کی ابتدا فارس اور ترک سے ہوئی ہے اور شاہ جہاں کے خانسماں کا تعلق فارس سے تھا لیکن اس کے باقاعدہ کوئی شواہد نہیں ملتے۔ خیر اس بحث سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کس نے بنایا؟ جس نے بھی بنایا بہت مزیدار بنایا جو اب تک ہم سب کے منہ میں اپنے شیریں ذائقے سے رس گھول دیتا ہے۔

ایک اچھے گلاب جامن کو بنانے کے لیے ضروری ہے کہ نہ وہ زیادہ سخت ہو نہ زیادہ نرم کے ٹوٹ جائے۔ کھویا، میدہ چینی، الائچی، میوے کو اچھی طرح ملا کر بالز کی شکل دے دی جاتی اور گرم گھی یا تیل میں تل کر چینی کے بنے گرما گرم شیرے میں ڈال دیا جاتا ہے یوں منہ میں پانی بھر دینے والے گلاب جامن کی تیاری مکمل ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس شیرے میں گلاب جامن کو ڈالا جاتا ہے وہ گلاب کی پتیوں سے تیارکردہ کردہ ہوتا ہے اس لیے اس کا نام گلاب پڑا اور جامن کی شکل دے دی جاتی ہے، جی ہاں! اس لیے تو یہ گلاب جامن کہلائے ہیں۔

پاکستان میں مقبولیت پانے والے گلاب جامن کی پسندیدگی کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے اس کو چاہنے والے صرف یہاں نہیں بلکہ انڈیا، بنگلہ دیش، نیپال میں بھی ہیں یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اکثر یہ بحث دکھائی دی ہے اس کے بنانے والا کون سا ملک ہے اور سب نے اپنے اپنے ملک کو ہی بانی کہا لیکن پاکستان واحد ملک ہے جس نے باقاعدہ گلاب جامن کو قومی مٹھائی کا اعزاز دے دیا ہے۔

ایسے الفاظ جو انگلستان میں عام بول چال کا حصہ بن رہے ہیں انگلش آکسفرڈ نے کچھ عرصہ قبل سے ان الٖفاظوں کو آکسفرڈ ڈکشنری میں شامل کرنا شروع کیا ہے اور ان میں سے ایک لفظ ہم سب کا پسندیدہ گلاب جامن بھی ہے، جی ہاں! 2019 میں گلاب جامن کو انگلش آکسفرڈ ڈکشنری کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔

جب اتنے چاہنے والے ہوں اور ایسے میں ان گلاب جامن کو کوئی فرئیڈ ڈونٹس کہہ دے تو یقیناً غلط ہوگا۔ 2018 میں امریکی ویب سائٹ بز فیڈ کی موبائل فوڈ ایپ ٹیسٹی نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر گلاب جامن کو ”انڈین فرائیڈ ڈونٹس“ کا دیتے ہوئے ترکیب بتائی تھی۔ جب یہ ویڈیو وائرل ہوئی تو پاکستان اور انڈیا کے صارفین نے سوشل میڈیا پر خوب غصہ کا اظہار کیا اور ساتھ ہی مذاق بھی اڑایا۔ صارفین نے کہا کہ یہ ہماری روایتی مٹھائی ہے اور انگریز اس کا نام اپنی مرضی سے تبدیل کر رہے ہیں جبکہ ہم نے سن کے کھانوں کے نام کبھی نہیں تبدیل کیے۔ صرف اتنا ہی نہیں کچھ صارفین نے امریکی ممالک کے ڈیشز کے الٹے سیدھے نام بھی رکھے جیسے کہ پزاکو ”چیز چپاتی“ اور کورنش پیسٹری کو ”انگریزی سموسے“ کا نام دیا۔ یوں گلاب جامن کا غلط نام لینے پر سوشل میڈیا پر کافی عرصہ تک یہ بحث چھڑی رہی۔

پاکستان میں قومی حیثیت پانے کے بعد گلاب جامن کے چرچے دیگر ممالک میں بھی ہونے لگے۔ معروف امریکی ماڈل کرسٹین ٹائیگن نے سوشل میڈیا پر اپنے مداحوں سے گلاب جامن کی ترکیب پوچھی ساتھ ہی اس کے ذائقے کی تعریف بھی کی۔ ایسے ہی امریکی کامیڈین جریمی میکلن نے اپنی بیٹی کے ہمراہ کچھ تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کیں جس میں وہ مزیدارگلاب جامن سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور یہ بھی بتایا کہ ان کے پاکستانی دوستوں نے گلاب جامن بجھوائے ہیں۔

جی! تو کیسی لگی میاں گلاب جامن کی کہانی؟ یقیناً! اب آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کیوں نا کچھ میٹھا ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).