بنی گالہ اور بنی اسرائیل


جب 2018 ء میں تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو موجودہ وزیر اعظم کی سابقہ بیگم (پہلی والی) نے ایک ٹویٹ کیا تھا۔ وہ ٹویٹ بڑا بامعنی تھا۔ اس میں محترمہ نے عمران خان صاحب کو کچھ وعدے یاد دلائے تھے۔ ہمارے وطن کے معصوم لوگ سمجھے کہ شاید یہ وہ وعدے ہوں جو خان صاحب پاکستانی عوام سے کرتے رہے تھے مگر رفتہ رفتہ وہ وعدے کھل کر عوام کے سامنے آتے جا رہے ہیں۔

مثل مشہور ہے ”پوت کے پاؤں پالنے میں“ تحریک انصاف کے پاؤں تو کئی خبر رکھنے والوں کو صہیونی یہودیوں کی بھاری بھر کم انویسٹمنٹ میں پہلے ہی نظر آتے تھے مگر تحریک انصاف اتنی جلدی اپنے اس اصل ایجنڈے پر چل پڑے گی یہ کسے معلوم تھا؟

تحریک انصاف کی حکومت ابھی آئی ہی تھی کہ ایک اسرائیلی صحافی نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ اسرائیل سے ایک جہاز پاکستان آیا ہے اور کئی گھنٹے یہاں قیام کر کے گیا ہے، پھر پاکستان کے کچھ کھلاڑیوں کی تصاویر مقبوضہ فلسطین میں نظر آئیں اور سوال اٹھا کہ یہ کیسے ممکن ہو گیا کہ یہاں سے کوئی فلسطین جا سکے؟ پھر FIA کی ویب سائٹ پر اسرائیل کے حوالے سے بات آئی جو بعد میں غلطی کہہ کر مٹا دی گئی۔ بات یہاں پر بھی نہ رکی۔ ہمارے ملک کے ذرائع ابلاغ پر بڑے مصنوعی طور پر اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے حق میں کچھ بھاڑے کے صحافی میدان میں آ گئے اور پھر مشرف صاحب کے تن مردہ سے بھی اسرائیل اسرائیل کی صدائیں آنے لگیں۔

پھر شاہ محمود قریشی صاحب کے حوالے سے یہ بیان تہران ٹائمز میں آ گیا کہ پاکستان اسرائیل سے نارمل تعلقات کا خواہاں ہے۔ جب شاہ صاحب سے اس حوالے سے وضاحت طلب کی گئی تو شرماتے گھبراتے رہے۔ پھر اب جب سعودی عرب میں امام کعبہ کو یہودیوں کے بارے میں اچھی اچھی باتیں یاد آ رہی ہیں اور متحدہ عرب امارات اور بحرین اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں تو پھر پاکستان میں بڑی تیزی سے اسرائیل کے گیت شروع ہوگئے ہیں۔ ”یوٹیوبر“ اب اس کام پر لگے نظر آتے ہیں۔

مگر سوال یہ ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینے کا یہ سوال کیا پاکستان کی عوام کے باطن سے ظاہر ہوا ہے؟ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا تاریخی پس منظر کیا ہے اور اسرائیل کو تسلیم کر لینے سے کیا ہو گا؟

اسرائیل کو تسلیم کر لینے کا مطالبہ پاکستان کے باطن سے پیدا نہیں ہوا۔ پاکستان کی عوام کی اکثریت دیہات میں رہتی ہے اور اپنے فہم و شعور اور سادگی کے ساتھ مذہب سے منسلک ہے۔ وہ بیت المقدس کو اپنا قبلہ اول مانتے ہیں اور صہیونیوں کے اس پر قبضے کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہمارے ملک کے سب سے بالائی طبقے کے لبرل، سیکولر طبقے کے علاوہ کسی میں بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی کوئی خواہش موجود نہیں۔ اگر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مسئلے پر ہمارے ملک میں کوئی سچا ریفرنڈم کرایا جائے تو شاید 1 فیصد لوگ بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں نہ ہوں۔اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مسئلے پر ہمارے ملک میں کوئی سچا ریفرنڈم کرایا جائے تو شاید 1 فیصد لوگ بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں نہ ہوں۔

پھر اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا تاریخی پس منظر اتنا پرانا بھی نہیں کہ دنیا اسے بھول جائے۔ سب جانتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کے حوالے سے کیا فرمایا تھا۔ بات یہ ہے کہ اسرائیل اس طرح مظلوم فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کر کے بنایا گیا کہ اس وقت صرف مسلم ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی اسرائیل کے خلاف تھے۔ خود باضمیر یہود بھی اسرائیل کے وجود کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ گاندھی جی، نیلسن مینڈیلا، جی گویرا اور ایسے ان گنت نام ہیں جو ماضی میں اسرائیل کے وجود کے خلاف تھے، آئن اسٹائن جو خود بھی یہودی تھے، اسرائیل کے خلاف تھے، آج برطانیہ کے بہت سے ارکان پارلیمنٹ خصوصاً جارج گیلوئے، یورپ کے بہت سے افراد، آسٹریلیا کے رابرٹ مارٹن اور بہت سے لوگ اور خود اسرائیل کے ایریل گولڈ اور دنیا جہاں کے ان گنت، الگ الگ عقائد اور نظریات کے حامل افراد اسرائیل کے مخالف ہیں۔

اسرائیل کے فلسطینیوں پر مسلسل مظالم دنیا کے سامنے ہیں اور دنیا بھر میں ان پر سخت تنقید ہوتی ہے۔ اسرائیل کی اقوام عالم میں اخلاقی حیثیت انتہائی خراب ہے مگر کیونکہ دنیا اخلاقیات کے بجائے مفادات اور طاقت کے اصول پر چل رہی ہے، اس لیے اسرائیل کا کچھ خاص بگڑتا نہیں مگر اسرائیل کو اخلاقی چیمپئن بننے کا بھی شوق ہے۔ وہ اپنے ناجائز وجود اور اپنی غیر اخلاقی حرکات کے لئے مستقل جواز جوئی بھی کرتے ہیں اور اپنے خلاف بولنے والے ہر انسان اور ملک کو Antisemetic کہتے رہتے ہیں۔

اسرائیل کو تسلیم کر لینے سے پاکستان کو تو کوئی فائدہ نہ ہو گا مگر اسرائیل کو فائدہ ضرور ہو گا۔ دراصل وہ ایک ایک کر کے ہر ملک کو اپنے سفارتی تعلق میں لے آنا چاہتا ہے تا کہ اس کا وجود سارے عالم کے لئے ایک مسلمہ حقیقت بن جائے، اسرائیل کو ایک فائدہ اندرونی طور پر یہ بھی ہو گا کہ اس کے ملک کے حقیقی باشندے یعنی فلسطینیوں کی مایوسی میں اضافہ ہو گا کہ مسلمان اکثریت ہی نہیں بلکہ اسلام کے نام پر بننے والا اور خود کو اسلامی جمہوریہ کہنے والا ملک پاکستان بھی اس کی اخلاقی حمایت سے بھی تائب ہو گیا۔

پاکستان کو جو ممکنہ نقصانات ہوں گے وہ نظریاتی بھی ہیں اور اخلاقی بھی مگر اس سے بھی بڑھ کر یہ نقصانات خود پاکستان کی آزادی سے بھی منسلک ہیں۔ اسرائیل نے اپنے سبز قدم جس بھی ملک میں رکھے ہیں اسے بڑی حد تک اپنا گماشتہ بنا کر چھوڑا ہے۔ پھر اس ملک کی اپنی خواہشات بس اسرائیلی ضمیمہ بن کر رہ جاتی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال امریکا، برطانیہ اور بھارت ہیں۔

مگر امکانی طور پر تحریک انصاف کی حکومت یہ کر ہی گزرے گی۔ وہ ہلکے ہلکے قدم اٹھا کر بس عوامی ردعمل کا تجربہ کر رہی ہے۔ وہ عوام کو روٹی اور دوائی کے چکر میں اتنا الجھا دینا چاہتی ہے کہ عوام کے پاس ردعمل دینے کی ہمت ہو نہ ہی جان۔ وہ بس خاموشی سے ہی یہ بھی برداشت کر لیں۔ کون جانتا تھا کہ بنی گالہ سے راستہ دراصل بنی اسرائیل کی طرف نکلے گا۔ ابھی تو خان صاحب فرمارہے ہیں کہ وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ پاکستان اور اسرائیل میں ایک نوع کو تعلقات تو تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی قائم ہو بھی چکے۔ بس اعلان باقی ہے۔ عالم عرب کے تسلیم اسرائیل کے اعلانات کے بعد ’وسیع تر قومی مفاد‘ میں یہ اعلان خان صاحب کرتے نظر آئیں گے۔ خان صاحب کو اپنے وعدے پورے کرنے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).