حمزہ شہباز کو کرونا کیوں ہوا؟


قید میں حمزہ شہباز کو کرونا ہو گیا ہے۔ حمزہ شہباز قید کے دوران جب کبھی بھی اسمبلی کے اجلاس میں نظر آئے تو انہوں نے مکمل احتیاطی تدابیر اختیار کر رکھی تھی پھر مرض تو قید میں ہی کہیں آ کر چمٹ گیا مگر کیسے؟ کیا اس بات کی احتیاط سرکاری ملازم نہیں کر رہے تھے کہ پنجاب اسمبلی کے قائد حزب اختلاف کو اس وبا سے کیسے محفوظ رکھا جاسکے کہیں تو کوئی گڑبڑ ضرور ہوئی ہے جان بوجھ کر یا نادانستہ طور پر ایسا کچھ ہوا تو ہے۔

ایسا صرف اس لئے روا رکھا جا رہا ہے کہ کسی طرح نواز شریف کو توڑ ڈالا جائے بیٹوں کی مانند عزیز بھتیجے کو صعوبتیں دینے کا حربہ نواز شریف کو توڑنے کے لیے پہلی بار استعمال نہیں کیا جا رہا ہے ابھی حمزہ شہباز طالب علم ہی تھا کہ سیاست ہو یا دیگر معاملات زندگی اس سے جتنا کسی سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے طالب علم کا تعلق ہو سکتا ہے اتنا ہی تعلق حمزہ شہباز کا بھی تھا۔ مگر انیس سو نوے کی دہائی کی جمہوریت اس سوجھ بوجھ سے عاری تھی کہ سیاسی نوعیت کی گرفتاری کسی کی وقتی انا کی تسکین اور دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث بن سکتی ہے مگر اس سے کسی کے سیاسی قلعے میں، اس کی سیاسی حمایت میں نقب لگانا ممکن نہیں ہو سکتا ہے بلکہ یہ مستقبل میں مسائل میں اضافہ کا باعث ہو گا مگر اتنا سمجھنا اس وقت ممکن نہیں تھا۔

حمزہ شہباز قید کی یادیں یاد کرتے ہوئے موجودہ سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی سے اپنی گفتگو بھی دوہرا دیتے ہیں۔ پرویز الہی بھی ادھر ہی قید تھے اور اسی کشتی کے سوار تھے کہ جس کشتی کے سربراہ میاں محمد نواز شریف تھے مگر جب مشرف نے آئین کو پامال کر ڈالا تو جلد از جلد اس کی قربت کے خواستگار بن گئے حالانکہ ان کا لیڈر نواز شریف مشرف کی قید میں تھا۔ بہرحال مشرف کا خونی عہد اپنی پوری طاقت کے ساتھ نمودار ہو گیا کہ جس کے اثرات آج بھی نظام کو ہچکولے دے رہے ہیں۔

اس وقت بھی مشرف نے آخری وقت تک اپنے غیض و غضب کا نشانہ بنا نے کے لئے حمزہ شہباز کا ہی انتخاب کیا تھا۔ قید سے لے کر مقدمات کا سامنا مستقل بنیادوں پر حمزہ شہباز کو ہی کرنا پڑتا رہا۔ مقصد صرف ایک تھا کہ نواز شریف کو سیاسی اقدامات سے دور رکھا جاسکے یہ علیحدہ بات ہے کہ پھر بھی ماضی کی ان دونوں قیدوں کے باوجود نواز شریف کو بروقت سیاسی اقدامات سے دور رکھا جانا ممکن نہیں ہو سکا سوال یہ ہے کہ مشرف کی اور اس سے پہلی قید کے وقت کے لئے نظر انتخاب حمزہ شہباز پر ہی کیوں پڑی کیا اس وقت سے ہی مسلم لیگ کے مخالفین اس نوجوان سے اپنے لئے خطرہ محسوس کر رہے تھے اور آج بھی خطرہ محسوس کر رہیں ہیں۔

سیاسی قیادتوں پر جب وہ عمومی سیاست سے ہٹ کر عوامی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات اٹھا رہی ہوتی ہے تو اس قسم کے مصائب و آلام کا آنا ترقی پذیر ممالک میں ایک ناگزیر حقیقت ہے غیر آئینی طور پر طاقت کا بہیمانہ استعمال کیا جاتا ہے اور منتخب لیڈران کو حالات کے جبر سے ڈرایا جاتا ہے۔ جب انیس سو اٹھانوے میں ہوگو شاویز ووٹ کی طاقت سے برسر اقتدار آئے تو وہاں کے طاقتور طبقات نے اس کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش شروع کر دی اور جب یقین ہو گیا کہ اس کے عزائم عوامی زندگی میں تبدیلی لانے کی ایک موثر کوشش ہے تو پھر اس کے خلاف ہر حربہ استعمال کرنے لگے یہاں تک کہ 11 اپریل 2002 کو فوجی بغاوت بھی کروا ڈالی۔

ایلن ووڈ نے ہوگو شاویز کی سیاست پر ایک معرکۃ الآراء کتاب The venezuelan Revolution ( The marxist perspective) تحریر کی تھی۔ اس کتاب میں بغاوت کی وجوہات کو بیان کرتے ہوئے وہ تحریر کرتا ہے کہ ”جب علم ہو گیا کہ وہ برائے فروخت نہیں تو بالادست طبقے نے اپنی قوتوں کو منظم اور متحرک کرنا شروع کر دیا انہوں نے درمیانی طبقے کو بھڑکانے اور مشتعل کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ پر اپنے کنٹرول کو بے دردی سے استعمال کرنا شروع کر دیا انہوں نے سی آئی اے کو اس کی زرخرید بدعنوان ٹریڈ یونین لیڈر شپ سے رجعتی ہڑتالیں کروانے کے لیے استعمال کیا ویسے ہی جیسے سی آئی اے نے چلی میں سلواڈور الاندے کی حکومت کے خلاف لاری ڈرائیوروں سے ہڑتال کروائی تھی۔

بہرحال جب یہ سب کروا لیا گیا تو پھر ہوگو شاویز کے خلاف 11 اپریل 2002 کو فوجی بغاوت کر دی گئی۔ اسی کتاب میں ہوگو شاویز مصنف کو فوجی بغاوت کے دنوں کی یاد بتاتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ مجھے قید تنہائی میں رکھا گیا۔ باغی ایک دستاویز پر دستخط لینا چاہتے تھے، استعفی کی دستاویز، میں نے انکار کر دیا ان کی خواہش یہی تھی کہ جو کچھ کچھ عرصہ قبل ہیٹی میں آرسٹائڈ کے ساتھ ہوا تھا وہی میرے ساتھ کیا جائے۔ میں نے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا سازشوں نے چرچ کو بھی میرے خلاف استعمال کیا کارڈینل کو میرے پاس بھیجا اس نے میرے سامنے کئی جھوٹ بولے جیسے میری کوئی حمایت نہیں ہر ایک نے مجھے چھوڑ دیا ہے فوج مکمل طور پر بغاوت کے ساتھ ہے۔ میرے پاس معلومات کا کوئی ذریعہ نہیں تھا لیکن میں نے پھر بھی انکار کر دیا۔

اگر ہم غور کریں تو ذرائع ابلاغ کا استعمال سے لے کر پنجاب میں صحت کے شعبے میں وائی ڈی اے کی بار بار ہڑتالوں اور مذہبی افراد کے استعمال تک تو ہمیں صاف محسوس ہوگا کہ یہ کہانی تو پاکستان میں بھی اسی طرح دہرائی گئی ہے وہی ڈیزائن کا استعمال کیا گیا ہے۔ اور اب اعصاب توڑنے کی غرض سے مریم نواز کو پریشان کرنا ہو یا حمزہ شہباز کو قید میں رکھنا، کھیل ایک ہی طرح کا کھیلا جا رہا ہے لیکن زیادہ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہوگو شاویز کے خلاف یہ بغاوت ناکام ہو گئی تھی اور کہانی کا انجام وطن عزیز میں بھی ایسا ہی ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).