1965 کی پاکستان انڈیا جنگ اور ایوب خان کا خفیہ دورۂِ چین


سنہ 1965 کی پاکستان انڈیا جنگ کو 55 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ جنگ جہاں پاکستان کی تاریخ کا ایک درخشاں باب سمجھا جاتا ہے وہیں کچھ ایسے شواہد بھی ملتے ہیں کہ معاملات وہ نہیں تھے جو بیان کیے جاتے ہیں۔

بظاہر یہ جنگ 6 ستمبر 1965 کو شروع ہوئی جب انڈیا نے پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے بین الاقوامی سرحد عبور کی مگر مؤرخین کے مطابق یہ جنگ 26 اپریل 1965 کو شروع ہوئی تھی جب پاکستانی فوج نے رن کچھ کے علاقے میں کنجرکوٹ اور بیاربیٹ کے علاقے پر قبضہ کیا تھا۔

چند روز بعد برطانوی وزیر اعظم ہیرلڈ ولسن نے دونوں حکومتوں کے مابین مفاہمت کروانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں چنانچہ 30 جون 1965 کو دونوں ممالک نے جنگ بندی کے ایک معاہدے پر دستخط کردیے اور یہ معاملہ ایک بین الاقوامی ٹریبونل کے سپرد کردیا گیا۔

جولائی 1965 میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور پاکستان کی مسلح افواج نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو انڈیا سے آزاد کروانے کے لیے ایک گوریلا آپریشن شروع کیا جسے ’آپریشن جبرالٹر‘ کا نام دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

فیلڈ مارشل کی ڈائری

پاکستانی تاریخ کی ’تاریک ترین‘ رات

ایوب خان کا دور ترقی کی علامت یا ناہمواری کی نشانی؟

اس آپریشن کی منصوبہ بندی ایوب خان کی ہدایت پر 12 ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ جنرل اختر حسین ملک نے کی تھی جبکہ اسے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور سیکریٹری خارجہ عزیز احمد کی تائید بھی حاصل تھی۔

آپریشن جبرالٹر کی ذمہ داری مسلم فاتحین سے موسوم طارق، قاسم، خالد، صلاح الدین اور غزنوی نام کے پانچ دستوں کے سپرد کی گئی تھی۔ اس آپریشن کی مدد کے لیے ایک اضافی آپریشن بھی تشکیل دیا گیا تھا جس کا نام نصرت تھا۔ یہ تمام دستے 24 جولائی 1965 کو اپنے اپنے محاذوں پر روانہ ہوئے اور 28 جولائی کو اپنی اپنی منزل پر پہنچ گئے۔

مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ پاکستان، بالخصوص کشمیر کی تاریخ کا المناک باب ہے۔ یہ تمام دستے اپنے مشن میں بُری طرح ناکام ہوئے اور سوائے غزنوی کے، جس نے بڈھل اور اس کے ملحقہ علاقوں پر اپنا قبضہ قائم کرلیا تھا اور جسے مقامی آبادی کی حمایت بھی حاصل تھی، تمام کا تمام آپریشن جبرالٹر منتشر ہو کر دم توڑ گیا۔

ایوب خان

اس ناکامی کی کئی وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ تو یہی تھی کہ اس آپریشن میں شرکت کرنے والے گوریلا دستوں کی تربیت ناکافی تھی۔ پھر پاکستان کے دفتر خارجہ اور خفیہ اداروں کی اطلاعات کے برعکس انڈیا کا اپنا حفاظتی نظام خاصا بہتر تھا اور اس نے متاثرہ علاقوں میں کسی ممکنہ گڑبڑ کو دبانے کے لیے موثر اور بے رحمانہ ذرائع استعمال کیے تھے۔

پاکستان کی فوجی قیادت نے آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کے بعد آپریشن گرینڈ سلام شروع کیا جس کا مقصد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں متعین انڈین فوج کی سپلائی لائن کاٹنے کی غرض سے ریل کے واحد رابطے کو منقطع کرنے کے لیے اکھنور پر قبضہ کرنا تھا مگر یہ آپریشن بھی وقت کے موزوں انتخاب نہ ہونے کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوا۔

عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن، آپریشن جبرالٹر سے پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کے بعد آپریشن گرینڈ سلام محض اقدام خودکشی تھا۔

25 اگست کو انڈین فوج نے دانا کے مقام پر قبضہ کرلیا۔ اب انڈین فوج مظفرآباد کے قریب تھی۔ پھر 28 اگست کو انڈین فوج نے درہ حاجی پیر پر قبضہ کیا۔

اس وقت آرمی چیف جنرل موسیٰ کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور وہ انتہائی کرب کے عالم میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے پاس پہنچے اور کہا کہ میرے جوانوں کے پاس لڑنے کے لیے پتھروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

6 ستمبر 1965 کو انڈیا نے بین الاقوامی سرحد عبور کرلی، جس کی اطلاع ایوب خان کو صبح 4 بجے کے قریب ملی۔ اس کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ پاکستان کے کچھ علاقے انڈیا کے اور انڈیا کے کچھ علاقے پاکستان کے قبضے میں آگئے۔

11 ستمبر 1965 کو سیکریٹری دفاع نذیر احمد نے جنرل ایوب کو بتایا کہ بعض ممالک نے پاکستان کو اسلحہ دینے سے انکار کردیا ہے۔ 15 ستمبر کو امریکی صدر جانسن سے امن کی درخواست کی۔

اسی دن انڈیا نے بھی سلامتی کونسل میں بیان دیا کہ ہم جنگ بند کرنے کے لیے تیار ہیں، مگر جنگ جاری رہی۔

17 ستمبر کو عوامی جمہوریہ چین نے ایک بیان جاری کیا جس میں انڈیا سے کہا گیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرے۔پاکستان نے چین کے اس بیان کا خیر مقدم کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب مغربی طاقتوں نے پاکستان پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ جنگ بندی کا سمجھوتا قبول کرلے۔

خود پاکستان بھی مسئلہ کشمیر کو فوجی طاقت کی بجائے سفارتی طاقت سے حل کرنے کے حق میں تھا۔ ایسے موقع پر صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان نے مناسب سمجھا کہ وہ اپنے دیرینہ حلیف اور دوست عوامی جمہوریہ چین کے وزیر اعظم چو این لائی سے براہ راست مشاورت کریں۔

چنانچہ 19 اور 20 ستمبر 1965 کی درمیانی شب، صدر ایوب خان پشاور سے ایک طیارے کے ذریعے بیجنگ پہنچے اور اگلی شب واپس آگئے۔

ایوب خان کے اس دورے کو مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا اور پاکستان میں بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوسکا۔ ایوان صدر میں روزمرہ کے معمول کو سختی سے برقرار رکھا گیا۔

ایوب خان کے لیے صبح کی چائے لے جانے والا اسی طرح برتن سجا کر ان کے کمرے تک لے گیا اور خالی ٹرے واپس لایا۔ ایوان صدر کے سکیورٹی گارڈز کو بھی یہ شائبہ تک نہ ہوا کہ ایوب خان اندر موجود نہیں ہیں۔

اس دورے میں ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کے ہمراہ تھے۔ دونوں نے چو این لائی اور مارشل چن ژی کے ساتھ دو طویل ملاقاتیں کیں۔

ایوب خان نے چینی رہنمائوں کو صورت کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور انھیں بتایا کہ انڈیا نے کس طرح اپنی عددی قوت کے بل بوتے پر جنگی برتری حاصل کرنا شروع کردی ہے اور انڈیا کو کس طرح مغربی ممالک کی مسلسل حمایت حاصل ہے جو سوویت یونین کو ثالثی کا کردار ادا کرنے پرآمادہ کررہے ہیں۔

چو این لائی نے کہا کہ عددی قوت کی برتری عوام کے عزم کو مسخر نہیں کرسکتی۔ ایوب خان نے واضح کیا کہ پنجاب کا میدانی علاقہ دشمن کی بڑھتی ہوئی فوجوں کے خلاف گوریلا کارروائیوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔

اس مرحلے پر مارشل چن ژی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ہر چھوٹی بڑی نہر اور ٹیلے کو مورچے کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

چینی دوستوں نے پاکستان سے کہا کہ انھیں مذاکرات کی میز پر آنے کی بجائے ایک طویل جنگ لڑنے پر آمادہ ہوجانا چاہیے۔ ایوب خان نے پوچھا آپ کا یہ دباؤ کب تک برقرار رہے گا؟

چو این لائی نے ایوب خان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ ’جب تک آپ کو اس کی ضرورت ہوگی، خواہ آپ کو پہاڑوں تک پسپائی کرنا پڑے۔‘

مزید پڑھیے

’65 کی جنگ میں جب انڈین کمانڈر چھپ گئے‘

’1965 کی جنگ ایک سڑک کی وجہ سے شروع ہوئی‘

’میرے والد نے جنرل ایوب خان کی طرف سے میری آزادی کی پیشکش رد کر دی تھی‘

چین نے پاکستان سے واضح طور پر کہا کہ امریکہ اور روس دونوں ناقابل اعتبار ہیں اور پاکستان کو نہ ان کے سامنے جھکنا چاہیے اور نہ ان پر اعتماد کرنا چاہیے۔

ایوب خان حیران تھے کہ وہ اس غیر مشروط پیشکش کا کیا جواب دیں۔ انھوں نے کہا کہ جناب وزیراعظم میرا خیال ہے کہ آپ کچھ عجلت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

چو این لائی نے مسکراتے ہوئے ایوب خان کو امریکی دباؤ کے سامنے جھکنے سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان کو روسیوں کے جال میں بھی نہیں پھنسنا چاہیے وہ ناقابل اعتماد ہیں، آپ کو آخر کار خود ہی پتا چل جائے گا۔‘

بات چیت کے اختتام تک یہ واضح ہوچکا تھا کہ اگر پاکستان چین کی مکمل حمایت چاہتا ہے تو اسے ایک طویل جنگ کے لیے تیار ہوجانا چاہیے، جس میں لاہور اور بعض دیگر شہر دشمن کے قبضے میں بھی جاسکتے ہیں۔

ایوب خان

ایوب خان نے 1962 میں سابق وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی کے بارے میں فتویٰ دیا کہ وہ ایک بیرونی گماشتہ اور شرپسند ہے

چینی رہنماؤں کا خیال تھا کہ پاکستان کو پہنچنے والا ہر نقصان پاکستان کے عوام کو متحد کرنے کا باعث ہوگا اور انڈین فوجیں عوامی مزاحمت کے نرغے میں پھنس کر رہ جائیں گی مگر بھٹو اور ایوب دونوں میں سے کوئی بھی اس کام کے لیے تیار نہ تھا۔

پاکستانی حکام ایک طویل جنگ لڑنے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ بری اور فضائی افواج کے سربراہان بھی جنگ بندی کے خواہاں تھے کیونکہ ان کی طاقت دن بدن گھٹتی جارہی تھی۔ جنرل موسیٰ اسلحہ اور اضافی پرزوں کی شدید قلت کی بنا پر حوصلہ ہارے ہوئے تھے اور ایئر مارشل نور خان طیاروں کی روز بروز گھٹتی ہوئی تعداد سے دلبرداشتہ تھے۔

ہر فضائی جھڑپ کے بعد پاکستان کی فضائیہ کے دو ایک طیارے کم ہوجاتے تھے، چنانچہ پاکستان کو چین کے مشوروں کو نظر انداز کرنا پڑا اور وہی ہوا جو امریکہ اور روس چاہتے تھے۔ اگلے دن 20 ستمبر 1965 کو سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں پاکستان اور انڈیا کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ 22 اور 23 ستمبر کی درمیانی شب جنگ بند کردیں۔

اس مرحلے پر پاکستان نے وزیر خارجہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو سلامتی کونسل میں پاکستان کی نمائندگی کے لئے روانہ کیا تاکہ وہ سلامتی کونسل کے سامنے پاکستان کا موقف بیان کرسکیں اور اقوام متحدہ کو باور کروائیں کہ مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کیے بغیر جنگ کا خاتمہ ممکن نہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو 22 ستمبر کو نیویارک پہنچتے ہی فوراً اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر پہنچے جہاں سلامتی کونسل کا اجلاس جاری تھا۔ اس موقع پر جناب بھٹو نے بڑی پُراثر تقریر کی۔

انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان پر ایک بڑے ملک نے حملہ کیا ہے اور اس وقت ہم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا کہ اپنی بقا کی خاطر اگر ہمیں انڈیا سے ایک ہزار سال تک لڑنا پڑا تو ہم لڑیں گے۔ ابھی ان کی تقریر جاری تھی کہ اسی دوران انہیں صدر ایوب خان کا ایک تار لاکر دیا گیا۔

اس تار میں صدر ایوب خان نے اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قرارداد منظور کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس تار کے مندرجات سلامتی کونسل کے ارکان کو پڑھ کر سنائے اور کہا کہ ان کا ملک جنگ بند کرنے پر آمادہ ہوگیا ہے لیکن اس کے باوجود اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنا پڑے گا ورنہ پاکستان اقوام متحدہ سے الگ ہوجائے گا۔

اس جنگ کے دوران ہی سوویت یونین نے پاکستان اور انڈیا دونوں کو ایک پرامن معاہدے کا بندوبست کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کی۔

نومبر 1965 میں انڈین وزیراعظم لال بہادر شاستری نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے سوویت یونین جانے کے لیے تیار ہیں لیکن وہ کشمیر کے مسئلہ کے علاوہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہر نوع کے مسائل پربات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ادھر پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو بھی ماسکو پہنچے اور انھوں نے کہاکہ اگرچہ شاستری کا بیان مثبت نہیں ہے تاہم اس بیان میں مذاکرات پر آمادگی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ دسمبر 1965 میں صدر ایوب خان واشنگٹن روانہ ہوئے جہاں انھوں نے امریکی صدر جانسن سے بھی ملاقات کی اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔

ایوب خان نے امریکی صدر جانسن کو باور کرانے کی کوشش کی کہ برصغیر کے معاملات میں سوویت یونین کو فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی اجازت دینا غیر دانش مندانہ فیصلہ ہوگا، مگر امریکا اور ان کے مغربی اتحادیوں کا خیال تھا کہ صرف سوویت یونین ہی عالمی سطح پر کسی ایسی محاذ آرائی کو روک سکتا ہے جس میں چین اور پاکستان ایک جانب ہوں اور سوویت یونین اور انڈیا دوسری جانب۔

امریکا نے پاکستان کو یہ بھی باور کرایا کہ امریکا ویت نام کی جنگ میں بری طرح الجھاہوا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ چین کو برصغیر کے معاملات میں ملوث کرنا خطرے کا باعث ہوسکتا ہے۔ سوویت یونین بھی کسی صورت میں چین کے ساتھ کوئی جھگڑا مول لینا نہیں چاہتا۔

ان دونوں عوامل نے سوویت یونین کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان موزوں ترین ثالث بنادیا۔ ایوب خان امریکا سے مایوسی کے عالم میں واپس لوٹے اور جنوری 1966 کے پہلے ہفتے میں سولہ رکنی وفد کے ہمراہ روس کی جمہوریہ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچے ان کے وفد میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو، وزیر اطلاعات و نشریات خواجہ شہاب الدین اور وزیر تجارت غلام فاروق کے علاوہ اعلیٰ سول اور فوجی حکام شامل تھے۔

پاکستان اور انڈیا کے یہ تاریخی مذاکرات جن میں سوویت یونین نے ثالث کے فرائض انجام دیے،7 دن تک جاری رہے۔ اس دوران کئی مرتبہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے کیونکہ انڈیا کے وزیر اعظم شاستری نے ان مذاکرات میں کشمیر کا ذکر شامل کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ان کے نزدیک یہ مسئلہ طے شدہ تھا اور یہ مذاکرات صرف ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ہورہے تھے جو حالیہ جنگ سے پیدا ہوئے تھے۔ پاکستانی وفد کا خیال تھا کہ ایسے حالات میں یہ مذاکرات بے مقصد ہوں گے اور پاکستانی وفد کو کوئی معاہدہ کیے بغیر واپس لوٹ جانا چاہیے۔

ایوب خان

مگر مذاکرات کے آخری ایام میں سوویت وزیر اعظم کوسیجین نے صدر ایوب خان سے مسلسل کئی ملاقاتیں کیں اور انھیں انڈیا کے ساتھ کسی نہ کسی سمجھوتے پر پہنچنے پر رضامند کرلیا۔ یوں 10 جنوری 1966 کو صدر ایوب خان اور وزیر اعظم شاستری نے معاہدہ تاشقند پر اپنے دستخط ثبت کردیے۔

اس معاہدے کے تحت طے پایا کہ دونوں ممالک کی مسلح افواج اگلے ڈیڑھ ماہ میں 5 اگست 1965 سے پہلے والی پوزیشن پر واپس چلی جائیں گی اور دونوں ممالک مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے منشور پر پابند رہتے ہوئے باہمی مذاکرات کی بنیاد پر حل کریں گے۔

معاہدہ تاشقند پر دستخط صدر ایوب خان کی سیاسی زندگی کا سب سے غلط فیصلہ ثابت ہوئے۔ یہی وہ معاہدہ تھا جس کی بنا پر پاکستانی عوام میں ان کے خلاف غم و غصہ کی لہر پیدا ہوئی اور بالآخر ایوب خان کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔

پاکستانی عوام کا آج تک یہی خیال ہے کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو تاشقند کی سرزمین پر ہمیشہ کے لیے دفن کردیا اور وہ جنگ، جو خود حکومتی دعوئوں کے مطابق میدان میں جیتی جاچکی تھی، معاہدے کی میز پر ہار دی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp