کیا حزب اختلاف عوام کو متحرک کر سکے گی؟


حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے موجودہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہیں عوام کی بڑی فکر ہے کیونکہ وہ مہنگائی اور بے روز گاری کے ہاتھوں سخت پریشان ہیں ان کا جینا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے لہذا انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب وہ عوام کو تنہا نہیں چھوڑ سکتیں انہیں اس حکومت سے نجات دلا کر ہی دم لیں گی؟

احتجاج ہر شہری کا حق ہے لہذا سیاسی جماعتوں کو بھی اس کی پوری آزادی ہے کہ وہ سڑکوں پر آئیں اور آکر حکومت کو ہدف تنقید بنائیں اسے مہنگائی اور بے روزگاری کے بارے میں بتائیں اور اس کے خاتمے یا کم کرنے سے متعلق اپنی تجاویز بھی پیش کریں مگر یہ بات عجیب ہے کہ وہ حکومت کو گرانے کے لئے میدان میں کود پڑیں۔

اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ انہیں عوام سے دلچسپی نہیں اپنے مفادات عزیز ہیں جس کے لئے وہ عوام کی آڑ لے رہی ہے اگر اسے عوام سے ہمدردی ہوتی تو آج وہ جس صورت حال سے دوچار ہیں نہ ہوتے کہ بھاری ترین قرضہ لے کر غیر ضروری منصوبوں پر خرچ کرکے ان پر بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ ستم یہ کہ ساٹھ ستر فیصد قرض حکمرانوں اور ان کے عزیز و اقارب کی ذات پر صرف ہوا جس سے وہ منصوبے جو بظاہر عوام کی بہتری کے لئے بنائے گئے تھے عوام کو خاطر خواہ فائدہ نہ پہنچا سکے۔

یہی وجہ ہے کہ نیب ان کے پیچھے ہے اور حساب کتاب مانگ رہا ہے اس کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں ان ثبوتوں کی بنا پر حزب اختلاف پریشان ہے لہذا اس نے نیب کی باز پرس اور کھینچا تانی سے بچنے کے لئے قانونی راستہ اختیار کرنے کے بجائے ایک دوسرا راستہ اپنانے کا ارادہ کیا ہے کہ وہ حکومت کو دباؤ میں لانے اور اپنے اوپر سے توجہ ہٹانے کے لئے تحریک کا آغاز کر دے؟

اسے معلوم ہونا چاہیے کہ عوام اس کے ”کارناموں“ اور اپنے لئے دل میں جتنا درد وہ رکھتی ہے کو اچھی طرح جانتے ہے۔ اب جب وہ جمہوریت کی بات کرتی ہے تو ایک معنی خیز مسکراہٹ ان کے لبوں پر بکھر جاتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ہر ایک سیاسی جماعت کا سربراہ ہی تمام فیصلے کرتا ہے فرض کیا وہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ بھی کرتا ہے تو اس عمل کو جمہوری نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ہمارے نمائندے اٹھانوے فیصد غیر عوامی ہوتے ہیں ان کا تعلق نچلے طبقے سے نہیں ہوتا اشرافیہ سے ہوتا ہے جو اب تک ہر دو صورتوں میں ان پر مسلط چلی آ رہی ہے کہ اگر مارشل لا لگتا ہے تو بھی وہی کسی آمر کے ساتھ ہوتی ہے عام انتخابات ( جو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہوتا ہے ) کا انعقاد ہوتا ہے تب بھی وہی ”منتخب“ ہو کر آجاتی ہے عوام میں سے تو کوئی بھی منتخب نہیں ہوتا ہو بھی نہیں سکتا کہ وہ کروڑوں کہاں سے لائے ایک حلقے سے انتخاب لڑنے کے لئے کروڑوں چاہیے جو غریب آدمی کے لئے ناممکن ہوتا ہے لہذا وہ انتخابات میں حصہ لینے سے قاصر ہوتا ہے اگر وہ کھڑا بھی ہو جاتا ہے تواسے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔

بہر حال حزب اختلاف نے کل جماعتی کانفرنس منعقد کرکے اپنے کارکنوں کو حوصلہ دیا ہے کہ وہ ادھر ادھر نہ ہوں آئندہ اس کی حکومت قائم ہو گی جبکہ یہ آسان نہیں رہا اگر حکومت کو وقت سے پہلے فارغ کیا جاتا ہے تو وہ کارکنان جو حکومت سے روشن مستقبل کی آس لگائے بیٹھے ہیں مشتعل ہو جائیں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں عمران خان غریبوں کے ساتھی اور دیانت دار سیاستدان ہیں انہیں اپنے لئے دولت جمع کرنے کی کوئی خواہش نہیں اگر وہ ایسا سوچتے تو آج وہ کھربوں میں کھیلتے مگر انہوں نے ایسا نہیں سوچا ہاں یہ درست ہے کہ ان کے گرد وہ لوگ جمع ہو گئے ہیں جنہیں زر و جواہر میں دلچسپی ہے اور وہ جائز و ناجائز طریقے اختیار کرکے اپنی تجوریاں بھرتے نظر آتے ہیں مگر انہیں بھی نیب ضرور پوچھے گا پوچھ رہا ہے کیونکہ بد عنوانی کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

حزب اختلاف یہ نہیں چاہتی کیونکہ مبینہ طور سے اس نے بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے ہیں اس لئے ملک قرضوں کی ادائی کرنے میں مشکلات کا شکار ہے اور عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں اس میں مہنگائی مافیا کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے اور یہ مافیا پچھلی حکومتوں کی پیدا وار ہے جو آج بے حد طاقتور ہو چکا ہے اور کسی کی نہیں سنتا مگر اسے سنانا پڑے گا کیونکہ اس پر ہاتھ نرم رکھنے کی بنا پر معاملات الجھ رہے ہیں اور حزب اختلاف کو موقع مل رہا ہے انگلی اٹھانے کا لہذا حکومت کو سختی سے نمٹنے کا آغاز کر دینا چاہیے تاکہ عوام کی تکالیف کم ہو سکیں اس صورت میں حزب اختلاف کے پاس کوئی جواز نہیں ہو گا کسی تحریک کے چلانے کا اور جب وہ باضابطہ طور سے اسے شروع بھی کرے گی تو اسے ناکامی ہوگی۔

ویسے یہ بات کیسی عجیب ہے کہ وہ اپنے اپنے دور میں اقتدار میں غریبوں کو شریک کر سکی اور نہ ہی ان سے کوئی مشورہ لیتی رہی اب جب عمران خان کی حکومت آئی ہے تو اسے جمہوریت یاد آ گئی ہے کیا موجودہ حکومت عام انتخابات کے نتیجے میں وجود میں نہیں آئی۔ جی ہاں اس نے باقاعدہ انتخابات میں حصہ لیا اور منتخب ہوئی لہذا سے اقتدار سے محروم کرنا جائز نہیں ہو گا!

حرف آخر یہ کہ ہماری سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی کی آشیر باد ہی سے سیاسی افق پر نمودار ہوتی ہیں اور جب اپنے پاؤں مضبوط کر لیتی ہیں تو ماضی کو فراموش کر دیتی ہیں پھر جمہور اور جمہوریت کے تذکرے بھی ان کی زبان پر آ جاتے ہیں جبکہ عوام کو سب علم ہوتا ہے اب بھی وہ بہت کچھ جانتے ہیں انہیں بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).