بول بھائی، اب بول مگر بولنا تو سیکھ


\"m-imran\"حامد میر صاحب کہتے ہیں کہ پاکستان میں صحافت آزاد نہیں، شاید ٹھیک کہہ رہے ہوں گے کیونکہ بڑے سینئیر صحافی ہے لیکن میر صاحب ایک اور بات بھی کہہ گئے کہ صحافت اب میڈیا بن چکا ہے اور صحافی اینکرز۔ بہت سے لوگ حامد میر صاحب سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن میں اتفاق کرتا ہوں کیونکہ اگر ایک طرف اخباری صحافت پر ٹی وی کی میڈیا سبقت لے گیا ہے تو دوسری طرف انہی ٹی وی چینلوں میں صحافتی اقدار اور اصولوں کی دھچیاں اڑائی جارہی ہیں۔ کچھ اینکرز ایک مخصوص ٹولے کی خوشامد کررہے ہیں تو کچھ باقاعدہ طور پر سیاسی پارٹیوں کے ترجمان بن چکے ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی کا ورکر اپنے اپنے چینل کو باآسانی پہچان سکتا ہے جس سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ عوام میں سنسنی پھیلانے، مرچ مصالحے والے خبروں کا چسکا دینے اور اپنی ہی مرضی کی خبروں کو دینے کا رواج پروان چڑھ رہا ہے۔ ایسے میں صحافی کیا کریں؟ ہر کوئی اپنی معاشی تنگدستی سے تنگ آکر یہی سب کچھ کرے گا، بادل ناخواستہ ہی سہی لیکن کمرشلزم کے اس دور میں معاشی طور پر مستحکم ہونے کے لئے کسی نہ کسی کو تو خوش کرنا ہی پڑے گا۔

ایسے میں اگر کوئی \”نیا ٹی وی چینل\” آ جائے اور وہاں پیسے زیادہ مل رہے ہوں تو سیاسی وفاداریوں کی طرح صحافتی وفاداریاں بھی باآسانی تبدیل ہوتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہیں۔ پاکستانی صحافت میں صحافتی اصولوں کی بات کرنا شاید مشکل ہوگا کیونکہ سب رپورٹرز، کیمرہ مین، سب ایڈیٹرز، ایڈیٹرز اور نیوزڈائریکٹرز بخوبی یہ جان چکے ہیں کہ اگر کسی بھی ٹی وی میں کام کرنا ہے تو صحافتی اقدار سے زیادہ معاشی تقاضوں کا خیال رکھنا ہوگا ورنہ گڈ بائے۔

نو وارد ٹی وی چینل کی بات ہورہی تھی تو یہاں پر میں بتاتا چلوں کہ پہلے اخباری صحافت میں صرف صحافی ہوا کرتے تھے پھر ٹی وی کی صحافت میں اینکرز اور تجزیہ کار آگئے اور اب’’اسی ٹی وی چینل‘‘ پر اداکار بیٹھ کر پاکستان کے سیاسی حالات کا مدبرانہ و دانشورانہ تجزئیے کر رہے ہیں جو صحافتی میدان میں شاید پہلا اور انوکھا اقدام ہوگا۔ اب اس کو سراہا جائے یا اس کی حوصلہ شکنی کی جائے، منحصر ہے اس پہ کہ عوام کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔

ٹی وی ہو یا اخبار اب صرف صحافت سے کام نہیں چلنے والا، یہاں پر بہت سے لوگوں کو خوش کرنا ہوگا اور میرے خیال میں جس طرح ایک نووارد ٹی وی چینل (جس کو ابھی ابھی ٹیسٹ ٹرانسمشن کی اجازت مل گئی ہے) جس طرح بہت سے لوگوں کو خوش کر رہا ہے پاکستان کی صحافتی تاریخ میں شاید نہ پہلے مثال مل سکتی ہے اور نہ شاید آنے والے 100 سالوں میں مل سکے گی۔ جس طرح ایک نام نہاد اینکر صاحب صحافیوں کا مذاق اڑارہا ہے اور انہیں بابا بابا کہہ رہا ہے مجھے خود اپنے صحافی ہونے پر شرم محسوس ہوتی ہے۔ شرم اس بات پر نہیں کہ میں صحافی کیوں ہوں بلکہ شرم اس بات پر کہ ایک انٹرٹینر کس طرح صحافیوں پر بلاجواز، بے ترتیب، غیر اخلاقی اور غیر ذمہ دارانہ تیر چلا رہا ہے لیکن نہ تو پیمرا کچھ کہہ رہا ہے اور نہ صحافتی تنظیمیں کوئی ایکشن لے رہے ہیں۔

پاکستان میں سیاست کے ساتھ ساتھ صحافت کی تاریخ بھی درد بھری ہے کیونکہ اگر جمہوریت کو پروان چڑھنے نہیں دیا گیا تو صحافتی آزادی پر بھی بے شمار وار کئے گئے، یہاں تک کہ صحافیوں کو مارا پیٹا گیا لیکن صحافی ابھی تک ڈٹے ہیں اور ڈٹے رہیں گے۔

مجھے گلہ ہے ان تمام صحافیوں سے جو ابھی تک خاموش ہیں کیوں اس شخص کے بارے میں کچھ نہیں کہہ رہے؟ کیوں اس چینل کے مالکان کے ساتھ بات نہیں کی جا رہی ؟ کہ کس غیرذمہ دارانہ طریقے سے ان کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ جو منہ میں آئے وہ کہتے رہے بس ایک ’’مخصوص طبقے‘‘ کو خوش کرنا ہے چاہے اس کے لئے کسی کی کردار کشی کیوں نہ کی جائے۔ میں پھر ایک بات دہراتا ہوں کہ پاکستان میں صحافتی آزادی نہیں اگر ہے بھی تو صحافی اپنے آپ کو بچانے کے لئے ’’سیلف سنسر شپ‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے کیونکہ عام لوگوں کی طرح ان کو بھی اپنی جان بہت عزیز ہے۔

صحافیوں، دانشوروں، تجزیہ کاروں اور صحافتی تنظیموں سے یہی ایک درخواست کروں گا کہ خدارا پاکستان میں صحافت کے اصولوں پر اگر عمل نہیں کیا جاسکتا تو کم از کم غیر صحافی لوگوں کو اس اہم منصب پر نہ بٹھایا جائے کیونکہ صحافت کا کام سچ بولنا ہے جو شاید پاکستان میں بہت کم بولا جاتا ہے اور اگر کوئی کم سے کچھ زیادہ بولے تو آگے اس کے لئے تاریخ خاموش کردی جاتی ہے۔

جس انٹرٹینر کی بات میں نے اوپر کے سطروں میں کی اس کو آپ بخوبی جانتے ہیں اور اگر نہیں جانتے تو شاید آپ نے \”غالب\” فلم نہیں دیکھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments