گلگت بلتستان صوبہ۔۔۔۔ عبوری، آئینی، مشروط یا کچھ اور؟


گلگت بلتستان کے الیکشن قریب ہیں اور ایسے میں وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان گنڈاپور کے بیان پر کہ تحریک انصاف کی حکومت نے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے، رکی ہوئی بحث پھر سے چھیڑ دی ہے۔ لوگوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ یہ بیان بھی الیکشن کو جیتنے کے لیے ایک سلوگن کے طور پر استعمال کیا جائے گا جیسے کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ گلگت بلتستان کی عوام نے پاکستان سے الحاق کے بعد سے امید لگا رکھی تھی کہ نہ صرف اس خطے کو باقاعدہ آئینی حیثیت دی جائے گی بلکہ اس کی جغرافیائی حیثیت کو دیکھتے ہوئے اسے صوبہ بھی بنا دیا جائے گا۔

اس ضمن میں پہلا سیاسی مطالبہ غالباً بھٹو صاحب جب 1972 ء میں گلگت بلتستان دورے پر ائے تو اٹھایا گیا۔ بھٹو نے اس علاقے کے لئے اہم اصلاحات کیں جن میں فرنٹیئر کرائم ریگولیشنFCR کا خاتمہ، علاقے سے راجگی کا خاتمہ اور گندم و تیل میں سبسڈی وغیرہ شامل تھیں۔ تاہم سنا ہے کہ صوبے کے قیام کے مطالبے پر انھوں نے کہا تھا کہ ”صوبہ بھٹو نہیں بناتا تاریخ بناتی ہے“ ۔ غالباً ان کا اشارہ عوامی جدوجہد اور سیاسی اتفاق کی طرف تھا۔

پھر اس کے بعد مختلف حکومتوں نے مختلف نوعیت کی اصلاحات کیں مگر صوبہ کا مطالبہ جوں کا توں برقرار رہا۔ 1999 ء میں پہلی بار اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے گلگت بلتستان کو صوبائی سیٹ اپ کی شکل دی اور پہلی بار وزیر اعلیٰ اور گورنر مقرر ہوئے۔ گو کہ ناقدین اسے ادھورا اور بے اختیار قرار دیتے ہیں لیکن دوسری طرف ایک بڑی رائے یہ ہے کہ الگ آئینی صوبے کے لئے اس اقدام سے راہ متعین ہو گئی ہے۔

2015 ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے گلگت بلتستان کے الیکشن کے دوران صوبے کا قصہ پھر سے چھیڑ دیا اور بعد ازاں سرتاج عزیز کی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس کی رپورٹ تو پبلک نہی کی گئی تاہم واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس کمیٹی نے آئین پاکستان میں جزوی ترمیم کر کے مسئلہ کشمیر کے حل تک گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی سفارش کی تھی۔ لیکن نہ جانے کون سی طاقت غالب آ گئی کہ عبوری صوبہ نہ بن سکا تاہم پچھلے آرڈیننس میں کچھ تبدیلیاں کی گئی جو بے اثر رہیں۔

2018 ء میں گلگت بلتستان کے کچھ افراد اور مختلف بار کی تنظیموں نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں رٹ پٹیشن دائر کردی اور آئینی حیثیت دینے کی درخواست کی نیز آڈر 2018 ء کو چیلنج کر دیا۔ جس پر اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے 17 جنوری 2019 ء کو اپنا محفوظ فیصلہ سنا دیا کہ مسئلہ کشمیر کے استصواب رائے تک پاکستان، گلگت بلتستان کے لئے زیادہ سے زیادہ انتظامی اختیارات دے جس میں بنیادی حقوق کی ضمانت ہو۔

اب جب کہ 2020 ء میں گلگت بلتستان میں الیکشن ہونے والے ہیں اور وفاق میں عمران خان کی حکومت ہے۔ اس حکومت کے وزراء کی جانب سے بیانات سامنے آئے ہیں کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل نمبر ایک اور آرٹیکل نمبر 51 میں ترمیم کر کے آئینی صوبے کے اختیارات دیے جا رہے ہیں۔ گو کہ اب تک تحریک انصاف کی حکومت کو وفاقی سطح پر مختلف آئینی ترامیم کے لئے کوئی مشکل پیش نہی آئی ہے، اپوزیشن جماعتوں کی چوں چراں بظاہر رہی لیکن تمام اہم ترامیم پاس ہوئی۔

اوپر سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ بھہ ایک پیچ پر ہے تو اسے میں گلگت بلتستان کے لئے آئینی عبوری صوبہ کی قانون سازی بھی آسان ہو جائے گئی۔ ساتھ ہی جنوبی ایشیا سے متعلق امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا نے لداخ اور کشمیر کو علیحدہ علیحدہ صوبہ بنا کر نیز آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے پاکستان کو بھی اس نہج پر لایا ہے کہ وہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے متعلق کوئی ایسا فیصلہ کرے۔ ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونوں اطراف کی حکومتوں نے یہ جان لیا ہے کہ جو حصہ جس کے پاس ہے اسی پہ ہی اکتفاء کرنا پڑے گا۔

ادھر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چین کی جانب سے CEPEC کے تحت گلگت بلتستان سمیت پاکستان کے دیگر صوبوں میں بہت بڑی مالیت کے پراجیکٹس کیے جا رہے ہیں اور اس کے لئے خطے کی حیثیت کا تعین بہت ضروری ہے۔ ایسے میں یہ خبر سامنے آئی ہے کہ وفاقی اپوزیشن جماعتوں کی APC سے پہلے مقتدرہ کی اہم شخصیات نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت سے ملاقات کرکے گلگت بلتستان کے حوالے سے کیے جانے والے ممکنہ اقدامات سے آگاہ کیا ہے جس کی گونج APC کے دوران بھی سنائی دی گئی۔ اب دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).