الیکشن ڈیوٹی اور مولانا مودودی مرحوم کا آخری دیدار


فروری سن 1979 میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں ملازمت کا آغاز کیا۔ اسی برس ستمبر میں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہو رہے تھے۔ 22 ستمبر کو مجھے رجسٹرار آفس سے فون آیا کہ ان انتخابات میں میری ڈیوٹی لگی ہے اور میں لاہور ٹاون ہال میں جا کر رپورٹ کروں۔ میں نے پوچھا اگر میں نہ جاوں تو۔ جواب ملا اس میں انکار کی گنجائش نہیں اس لیے جانا ہی پڑے گا۔ کچھ دوستوں سے بات کی تو انھوں نے بھی حکم کی تعمیل کرنے کا مشورہ دیا۔ اسی روز یہ خبر ملی تھی کہ امریکہ میں مولانا مودودی صاحب سفر آخرت پر روانہ ہو گئے ہیں۔

نہ چاہتے ہوئے بھی اگلے روز جب میں ٹاون ہال پہنچا تو وہاں مجھے استاد محترم پروفیسر بی اے چشتی صاحب (جی سی لاہور میں انگریزی کے پروفیسر) دکھائی دیے۔ پوچھا کدھر پھر رہے ہو تو میں نے بتایا کہ ڈیوٹی لگ گئی ہے۔ یہ سن کر کہنے لگے میرے ساتھ آو اور انھوں نے وہاں موجود ڈیوٹی آفیسر سے کہہ کر مجھے اپنے ساتھ لگوا لیا۔ اس الیکشن میں اچھی بات یہ تھی کہ بیلٹ باکس امیدواروں نے خود مہیا کرنے تھے۔ ہمیں صرف بیلٹ پیپروں اور مہروں وغیرہ پر مشتمل ایک تھیلا ملا جس کو میں نے آسانی سے اٹھا کر موٹر سائکل کے کیریر پر رکھ کر باندھ لیا۔ ہمارا پولنگ سٹیشن ٹاون شپ کے علاقے میں واپڈا کے ایکس ای این کے دفتر میں تھا۔ یہ دیکھ کر تسلی ہوئی کہ بہت کھلی جگہ تھی۔ کچھ دوسرے لوگ بھی پہنچے ہوئے تھے جن کی وہاں ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔ خواتین کا پولنگ سٹیشن بھی وہی تھا۔

24 ستمبر، بروز منگل پولنگ تھی۔ چشتی صاحب پریذائڈنگ افسر تھے اور میں ان کے ماتحت اسسٹنٹ پریذائڈنگ افسر کی ڈیوٹی ایک بوتھ پر دے رہا تھا۔ دوپہر کے وقت ایک صاحب ووٹ ڈالنے آئے، مجھے کسی نے کان میں کہا یہ امیدوار ہیں۔ میں نے اسے کاونٹر فائل پر انگوٹھا لگانے کو کہا تو کہنے لگا دستخط سے کام نہیں چلے گا۔ میرے منہ سے نکل گیا جت کے وی تسیں گوٹھے ای لانے نیں۔ شور کی وجہ سے اسے شاید پوری طرح سنائی نہیں دیا تھا۔ اس نے کہا، کیہ کہیا جے۔ میں نے کہا کجھ نئیں کہیا، تسیں انگوٹھا لاؤ۔

خیر پولنگ بہت سکون سے جاری تھی کہ ایک ووٹ پر ہنگامہ ہو گیا۔ میں نے چیلنج ووٹ ڈالنے کا کہہ دیا۔ وہ بیلٹ پیپر ایک لفافے میں بند کر کے الگ رکھ دیا گیا۔ پولنگ کے بعد کاونٹنگ کا مرحلہ بھی سکون اور خوش اسلوبی سے طے ہو گیا۔ جیتنے والے کا مارجن اتنا زیادہ تھا کہ دوسرے امیدوارں کے پولنگ ایجنٹ بھی خاموشی سے رزلٹ لے کر روانہ ہو گئے۔

سید ابو الاعلیٰ مودودی کی نماز جنازہ

جب تمام فارم وغیرہ پر کر لیے تو چشتی صاحب نے پوچھا اس چیلنج ووٹ کا کیا کرنا ہے؟ میں نے کہا، سر لفافہ مجھے دیں۔ میں نے لفافہ کھول کر پانچ روپے کا نوٹ الگ کرکے چوکیدار کو دے دیا کہ تم چائے پی لینا اور ووٹ پھاڑ کر پھینک دیا۔ چشتی صاحب نے یہ دیکھ کرغصے سے مجھے کہا، یہ کیا غیر قانونی حرکت کر رہے ہو۔ میں نے جواب دیا سر، کل کو کوئی مسئلہ ہوا تو آپ خواہ مخواہ تاریخیں بھگتتے رہیں گے۔ ہمارے پاس کوئی ریکارڈ نہیں، اللہ اللہ خیر سلا۔

خیر کام ختم ہونے پرچشتی صاحب کو موٹر سائکل پر ساتھ بٹھا کر ٹاون ہال کے لیے روانہ ہوا۔ جب ہم اچھرہ سے گزرے تو اس وقت تک مولانا مودودی صاحب کی میت لاہور پہنچ چکی تھی اور وہاں ان کا آخری دیدار کرنے والوں کا ہجوم جمع تھا۔ ٹاون ہال میں نتیجہ اور سامان جمع کروا کر میں نے چشتی صاحب کو وحدت کالونی میں ان کی رہائش گاہ پر ڈراپ کیا۔ میرے لیے اچھی بات یہ ہوئی کہ یہ پہلی ڈیوٹی آخری بھی ثابت ہوئی۔ اس کے بعد کبھی کسی الیکشن میں ڈیوٹی نہیں لگی تھی۔

جب میں گھر پہنچا تو رات کے نو بج چکے تھے۔ کھانا وغیرہ کھا کر فارغ ہوا تو بڑے بھائی جان نے اچھرہ چلنے کو کہا۔ میں نے اپنی حالت کا جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ جتنا تھکا ہوا ہوں، صبح جنازے میں شریک ہونا میرے لیے ممکن نہیں ہو گا۔ بہت زیادہ رش سے مجھے ویسے بھی وحشت اور گھبراہٹ ہوتی ہے۔ اس لیے یہ سوچ کر کہ مولانا کا آخری دیدار اسی وقت کر لیا جائے، میں ہمت کرکے اٹھ کھڑا ہوا۔ فیروز پور روڈ پر اچھرہ موڑ سے لے کر شمع سنیما والے چوک تک لائن لگی ہوئی تھی۔

بہرحال جماعت کے لوگوں کا نظم و ضبط نمایاں تھا۔ ہم دونوں بھی وہاں قطار میں لگ گئے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے بعد مولانا مرحوم کی رہائش گاہ تک رسائی حاصل ہوئی۔ جس وقت ہم وہاں مولانا کے تابوت کے پاس کھڑے تھے عین اسی وقت مولانا امین احسن اصلاحی بھی وہاں تشریف لائے تھے۔ اگلے دن جنازے پر بڑے بھائی جان ہی گئے تھے، مجھے تو تھکاوٹ کی بنا پر ہمت نہیں پڑی تھی۔

اس زمانے میں اصلاحی صاحب سمن آباد میں ڈونگی گراونڈ کے پاس ایک گھر میں نماز مغرب کے بعد درس قرآن دیا کرتے تھے۔ وہ جگہ میرے گھر سے نزدیک تھی اس لیے میں بھی کافی باقاعدگی کے ساتھ اس درس میں شریک ہوا کرتا تھا۔ ٹھیک سے یاد نہیں لیکن شاید جمعرات کا دن ہوتا تھا۔ مولانا مودودی صاحب کی وفات کے بعد جس روز درس ہوا تو شرکا بہت اشتیاق سے منتظر تھے کہ اصلاحی صاحب مودودی صاحب کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ دونوں بزرگوں کو ایک دوسرے سے قطع تعلق کیے لگ بھگ 23 برس کا عرصہ گزر چکا تھا۔

قطع تعلق کے ابتدائی برسوں میں ان کے مابین قلمی معرکہ آرائیوں کا بازار بھی گرم رہا تھا۔ اس طویل عرصے میں ان کی شاید ایک ہی ملاقات ہوئی تھی جب مولانا مودودی صاحب اصلاحی صاحب کے بیٹے ابو صالح اصلاحی کی وفات پر تعزیت کے لیے ان کے ہاں گئے تھے۔ ایک بار 1977 میں پاکستان قومی اتحاد کی بھٹو صاحب کی حکومت کے خلاف تحریک کے دنوں میں ٹیلی فون پر رابطہ ہوا تھا۔ بہرحال درس قرآن کے بعد مولانا اصلاحی نے مودودی صاحب کے بارے میں مختصر مگر بہت نپی تلی گفتگو کی اور انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ ایک جملہ شاید یہ تھا کہ ایک وہی تھے جن سے اختلاف کرنے کا بھی اپنا ہی مزہ تھا۔ یہ گفتگو چند روز بعد عبد القادر حسن کی ادرات میں شائع ہونے والے ہفت روزہ افریشیا میں بھی رپورٹ ہوئی تھی۔

مولانا اصلاحی آئندہ جمعہ 5 اکتوبر کو یار عزیز جاوید احمد (غامدی) صاحب کے ہاں ماڈل ٹاون ڈی بلاک میں تشریف لائے تھے۔ میں اور الیاس بھی وہاں موجود تھے۔ ہمارا مرحوم دوست فہیم منور بھی تھا۔ کچھ اور لوگ بھی تھے۔ اس روز زیادہ تر مولانا مودودی صاحب کا ہی تذکرہ ہوتا رہا۔ اصلاحی صاحب پٹھان کوٹ میں بیتے دنوں کے واقعات سناتے رہے۔ مولانا کو جب افریشیا کا شمارہ دکھایا گیا تو اس میں اپنی گفتگو کی رپورٹنگ دیکھ کر بہت خفا ہوئے کہ میں نے یہ جملہ نہیں بولا تھا۔ بالکل غلط، یہ میرا بیان نہیں ہے۔ جمعہ کی نماز ای بلاک کی مسجد میں ادا کی۔ واپس آئے تو مولانا نے کہا مجھے سنائی تو نہیں دیتا لیکن خطیب صاحب کا تعلق کیا جماعت اسلامی سے ہے۔ ہاں میں جواب ملنے پر مسکرا کر کہنے لگے، اتنے برس ہو گئے ہیں جماعت چھوڑے ہوئے لیکن ٹوپی اور داڑھی ابھی تک پہچانتا ہوں۔

افسوس! نہ مودودی صاحب رہے نہ اصلاحی صاحب۔ بس ان کی یادیں رہ گئی ہیں۔ کل من علیھا فان۔ و یبقیٰ وجہہ ربک ذوالجلال و الاکرام۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).