بھولا اور چریا جیسے لوگ


بھولا اور چریا دو دوست جن کے نام تو کچھ اور تھے لیکن عرفیت سے مشہور تھے، ایسے دوست جنھیں مشکل وقت نے ایک دوسرے کے قریب کر دیا تھا۔ بھولا واقعی بھولا بھالا تھا شکل سے بھی معصوم اور چریا تو سدا کا بے وقوف گھاس چرنے والے گدھے کی طرح چریا اور اسی کی طرح مالک کا حکم ماننے والا بے دام غلام، چریا کو کتنا بھی جان جوکھم کا کام دے دو، بنا چوں چرا کیے کر دیتا، بلکہ ایک وقت کے کھانے کے بدلے بڑے سے بڑا کام کر گزرتا تھا اور بھولا اس کے ساتھ ساتھ اس کا سہولت کار بنا پھرتا، پھر دنیا نے دیکھا انھوں نے سفاکی کی انتہا کردی اور اس کی سزا کی پاداش میں انھیں عدالت سے پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے یہ بھولا اور چریا کون ہیں، ہم اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو بے شمار بھولے اور چریے نظر آئیں گے، زندگی کے ہر شعبے میں کچھ بہت بھولے اور مکمل چریے لوگ پائے جاتے ہیں، ایسے لوگ اپنے بھولپن اور بیوقوفی میں غلط کام کو بھی اتنی سادگی سے انجام دیتے ہیں کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ یہ کام بھولا نے کیا ہے۔ یہی حال چریا لوگوں کا ہے وہ اپنے چریا پن میں معمولی معاوضے پر مشکل سے مشکل مہم سر کر لیتے ہیں، چاہے اس میں ان کی جان کو بھی خطرہ ہو۔ اکثر بھولے اور چریے لوگ اپنے بڑے صاحب کا ہر غلط کام بھی اپنے سر لے لیتے ہیں۔ ایکسیڈنٹ صاحب کے بیٹے سے ہوا پر یہ اس کی جگہ اپنی گرفتاری دے دیتے ہیں اس آسرے پہ بڑے صاحب ان کے خاندان کی کفالت کر لیں گے۔

ہمارے ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ان بھولا اور چریا جیسے لوگوں پر مشتمل ہے اور ایسے لوگ سیاست میں بہت کام آتے ہیں ہر سیاسی پارٹی انھیں استعمال کرتی ہے اور ٹشو پیپر کی طرح ڈسٹ بن میں پھینک دیتی ہے۔ جلسہ کروانا ہو تو یہ اپنے جیسے بھولے اور چریے جمع کر لیتے ہیں، صرف بریانی کی ایک پلیٹ کی خاطر اپنے لیڈر کی افلاطونی تقریر سن کر نعرے لگانا اور پارٹی کے جھنڈے لہرانا ان کا ہی کام ہوتا ہے۔ انھیں پارٹی میں کوئی عہدہ بھی نہیں ملتا پھر بھی معمولی کارکن بن کر ہی خوش رہتے ہیں کیونکہ یہ بھولے اور چریے ہیں۔ اپنے لیڈر کی اندھی حمایت کرتے ہیں تاکہ ان کی روزی روٹی چلتی رہے، کبھی پلٹ کر سوال نہیں کرتے انھیں صرف جی حضوری کرنی آتی ہے۔

دیکھا جائے تو تقریباً تمام سیاسی پارٹیاں ان بھولے اور چریے جیسے لوگوں کے بل پر چل رہی ہیں۔ کہیں انھیں میاں کے نعرے وجن گے، کہیں زندہ ہے بھٹو زندہ ہے اور کہیں مظلوموں کا ساتھی ہے الطاف حسین نظر آتا ہے، کہیں قربانی کی کھالیں جمع کرتے ہوئے ایک دوسرے کی جان لے لیتے ہیں اور کبھی تبدیلی کے نام پر نیا پاکستان بنانے نکل پڑتے ہیں۔ کبھی یہ بھولے جنت کی لالچ میں اپنا تن دھماکے سے اڑا لیتے ہیں، کبھی بھتہ کی وصولی کے دوران پولیس مقابلے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اپنی عقل بھول کر بھی استعمال نہیں کرتے کہ ان بھولے اور چریے لوگوں کی وجہ سے حکومت چلانے والے ان کی حالت کیوں نہیں بدلتے۔ اپنی تقریروں میں غریب کی زندگی اور مہنگائی کا رونا رونے والے جب اقتدار ملتا ہے تو ان بھولے اور چریے عوام کو کیوں بھول جاتے ہیں کیوں ان کا حق نہیں دیتے۔

یہ بھولے اور چریے بڑے بڑے جرائم اپنے لیڈروں کے کہنے پر کرتے ہیں اور بخوشی سزا کا طوق گلے پہن لیتے ہیں چاہے وہ پھانسی کا پھندا ہی کیوں نا ہو کیونکہ دس پندرہ بھولے چریے مرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ بھولے اور چریے لوگوں کی ایک نئی کھیپ تیار ہوتی ہے یہی سب کام کرنے کے لیے۔ اسی طرح کے بھولے اور چریے ہی ہر بڑے آدمی کا آلۂ کار ہوتے ہیں، ہم انھیں غریب عوام بھی کہہ سکتے ہیں۔ کب تک یہ لوگ غربت اور مجبوری کی وجہ سے ان کے ہاتھوں بھولا اور چریا بنتے رہیں گے، کیا کسی انصاف دلانے والے جج کی اس طرف نظر جائے گی یا پھر اسی طرح صرف نظر کیا جاتا رہے گا؟
( چریا :سندھ میں بولا جانے والا لفظ جو کسی بے حد بے وقوف انسان کے لیے استعمال ہوتا ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).