دیپیکا پاڈوکون کی واٹس ایپ چیٹس منظر عام پر کیسے آئی ہوں گی؟


دیپیکا پاڈوکون

اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی موت کی تفتیش اب بالی ووڈ میں منشیات کے بارے میں تفتیش میں تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے اور اس پورے کیس میں لوگوں کی واٹس ایپ چیٹس بھی میڈیا میں لیک ہوئی ہیں۔

حال ہی میں اداکارہ دیپیکا پاڈوکون کی ایک واٹس ایپ چیٹ میڈیا پر دکھائی جا رہی ہے، جس میں مبینہ طور پر وہ کسی سے منشیات مانگ رہی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ چیٹ کچھ سال پرانی ہے جو ڈیلیٹ ہو چکی تھی لیکن تفتیشی اداروں نے اسے حاصل کر لیا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ معلومات خود واٹس ایپ نے تفتیشی ایجنسیوں کو دیں یا کسی اور طریقے سے یہ چیٹ میڈیا تک پہنچی؟ اور واٹس ایپ پرائیویسی کے بارے میں جو دعوے کرتا ہے کیا وہ صحیح ہیں؟

کیا واٹس ایپ پیغامات سٹور کرتا ہے؟

واٹس ایپ کی پرائیویسی پالیسی کے مطابق کمپنی عام طور پر صارف کے پیغامات نہیں رکھتی۔ ایک بار اگر صارف کا پیغام ’ڈیلیور‘ ہو گیا تو وہ ان کے سرور سے ڈیلیٹ ہو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بالی وڈ میں منشیات کے استعمال کی کہانی

بالی وڈ میں منشیات کا استعمال، دپیکا پاڈوکون سمیت متعدد ستارے تحقیقات کے لیے طلب

واٹس ایپ پر پیغامات کا کھوج لگانا ممکن؟

اگر کوئی وائرل ویڈیو یا تصویر بہت سارے صارفین شئیر کر رہے ہیں تو کمپنی اسے ’لمبے‘ عرصے تک اپنے سرور میں رکھ سکتی ہے۔

صارفین کے پیغامات ’اینکرپٹڈ‘ ہوتے ہیں یعنی ایک فون (یا ڈیوائیس) سے دوسرے تک پیغام پہنچانے کے درمیان واٹس ایپ یا کوئی تیسری پارٹی اسے نہیں پڑھ سکتی۔

واٹس ایپ

صارف واٹس ایپ کو استعمال کیسے کرتا ہے، دوسروں سے کس طرح بات کرتا ہے، اس بارے میں معلومات واٹس ایپ جمع کرتا ہے۔

واٹس ایپ آپ کے بارے میں معلومات جمع کر سکتا ہے، استعمال کر سکتا ہے، انھیں سٹور کر سکتا ہے اور شئیر بھی کر سکتا ہے، اگر اسے لگے کہ ایسا کرنا ان وجوہات کی بنا پر ضروری ہے:

1۔ کسی قانونی کارروائی کے لیے، حکومت کی اپیل پر۔

2۔ اپنے قواعد کو نافذ کرنے کے لیے یا کسی اور قاعدے یا ضابطے کو نافذ کرنے کے لیے، کسی خلاف ورزی کی تحقیقات کے لیے۔

3۔ کسی دھوکہ دہی یا غیر قانونی کارروائی کا پتا لگانے کے لیے، تحقیقات کے لیے، سکیورٹی اور تکنیکی بنا پر۔

4۔ اپنے صارفین، واٹس ایپ، فیس بک کی کمپنیوں کے حقوق اور مال کی حفاظت کے لیے۔

تو واٹس ایپ کہتا ہے کہ وہ عام طور پر تو پیغامات کو سٹور نہیں کرتا، لیکن مخصوص حالات میں وہ ایسا کر سکتا ہے اور اسے شئیر بھی کر سکتا ہے۔

موبائل

واٹس ایپ چیٹس کیسے سامنے آ رہی ہیں؟

بالی ووڈ کے منشیات کے اس معاملے میں چیٹس لیک ہونے کے تین پہلو ہیں:

پہلا، یہ لیک کیسے ہو رہی ہیں؟

دوسرا، لیک ہونا قانونی طور پر صحیح ہے یا نہیں؟

تیسرا، واٹس ایپ کی سکیورٹی کا جو نظام ہے وہ صارفین کے لیے ٹھیک ہے یا نہیں؟

واٹس ایپ کا ’اینکرپشن‘ صرف ایک نقطہ سے دوسرے تک ہے، یعنی ایک فون سے دوسرے فون پر واٹس ایپ کے ذریعے بھیجا جانے والا کوئی پیغام واٹس ایپ یا کوئی تیسری حکومتی یا غیر حکومتی پارٹی نہیں پڑھ سکتی۔

لیکن اس کے بعد پیغام دونوں فونز میں رہتا ہے۔ وہاں سے ڈیلیٹ ہونے کے بعد بھی پیغام کو حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن کیسے؟

کئی بار واٹس ایپ میں صارف نے ’آرکائیو‘ کا آپشن منتخب کیا ہوتا ہے جس سے ان کی چیٹ گوگل ڈرائیو یا فون کی کسی ڈرائیو میں محفوظ ہو جاتی ہے۔ کئی بار ’چیٹ بیک اپ‘ کی وجہ سے بھی چیٹ فون میں موجود ہوتی ہے۔

واٹس ایپ

سائبر ماہر وراگ گپتا کہتے ہیں کہ فی الحال منشیات کے اس معاملے میں کئی گرفتاریاں ہو رہی ہیں، پوچھ گچھ ہو رہی ہے۔ اب تک تو یہی لگ رہا ہے کہ ان ہی لوگوں کے موبائل ڈیوائسز سے چیٹس کے سکرین شاٹس لیے گیے ہیں یا انھیں فون کی ڈرائیو سے نکالا گیا۔

کیا تحقیقاتی ادارے کے ساتھ یہ معلومات شئیر کی جا سکتی ہیں؟

لندن میں مقیم سائیر قانون کے ماہر یائیر کوہون نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ واٹس ایپ اپنی پرائیویسی پالیسی کے برعکس پیغامات سٹور کرتا ہے۔

’زیادہ تر جو پیغامات لیک ہوتے ہیں، وہ واٹس ایپ کی سکیورٹی میں خامی کی وجہ سے نہیں بلکہ تیسری پارٹی کی طرف سے قانونی یا غیر قانونی طور پر معلومات حاصل کرنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔‘

وراگ گپتا کہتے ہیں کہ تفتیشی ایجنسیاں واٹس ایپ سے بھی یہ چیٹ لے سکتی ہیں لیکن اس کا ایک طریقہ ہے اور ان ایجنسیوں کے پاس ڈیٹا لینا کے اختیارات بھی ہیں۔ ساتھ ہی ڈیٹا ان تک کیسے پہنچا، یہ انھیں چارج شیٹ میں بتانا بھی پڑے گا۔

جہاں تک واٹس ایپ کی پالیسی کی بات ہے تو ایک جگہ لکھا ہے کہ وہ کسی تفتیشی ایجنسی کی اپیل پر کسی شخص کے پیغامات سٹور بھی کر سکتے ہیں، اگر تب تک صارف نے پیغام ان کے سرور سے ڈیلیٹ نہ کیا ہو تو۔

مارک زکربرگ

تفتیشی ایجنسیوں کے خلاف کیا قانونی کارروائی ہو سکتی ہے؟

انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000 کا سیکشن 72 کہتا ہے کہ اس قانون کے تحت جس شخص کو کسی کا الیکٹرانک ریکارڈ، کتاب، معلومات، دستاویز رکھنے کا اختیار دیا گیا ہے اور وہ اس کی رضامندی کے بغیر کسی اور کو یہ سب دے دیتا ہے تو اسے دو سال تک کی سزا یا ایک لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں بھی ہو سکتے ہیں۔

وراگ گپتا کہتے ہیں کہ یہ جو تمام چیٹس میڈیا پر نشر کی جا رہی ہیں، یہ ان لوگون کی پرائیویسی کے خلاف ورزی تو ہے ہی، ساتھ ہی دوسرے لوگوں کی حفاظت سے جڑا معاملہ بھی ہے کیونکہ ایک شخص کے فون میں دوسرے کئی لوگوں کے بارے میں معلومات ہوتی ہیں۔

ان کے خیال میں سپریم کورٹ اور کئی ہائی کورٹس نے کہا ہے کہ تفتیشی ایجنسیاں تفتیش کے دوران اہم ثبوتاں یا پیشرفت کو شیئر نہیں کر سکتیں کیوںکہ ایسا کرنے سے کیس بھی کمزور ہوتا ہے اور یہ تعزیرات ہند کے تحت غلط ہے۔

آدمی موبائل فون استعمال کرتے ہوئے

کیا واٹس ایپ چیٹ عدالت میں ثبوت کے طور پر داخل کی جا سکتی ہے؟

ایویڈنس ایکٹ کے سیکشن 65 بی کے مطابق واٹس ایپ چیٹ کو ثبوت کے طور پر عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ایک حلف نامے کے ساتھ کہ اس میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا۔

وراگ گپتا کہتے ہیں کہ صرف چیٹ کی بنا پر کوئی جرم ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ کسی کو قصوروار ثابت کرنے کے لیے دیگر شواہد بھی دینے پڑتے ہیں۔

ساتھ ہی یہ بھی بتانا پڑتا ہے کہ یہ چیٹ کس طرح حاصل کی گئی یعنی اس کے ذرائع مصدقہ ہیں یا نہیں۔ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اسے حاصل کرنے میں صحیح طریقہ کار کا استعمال کیا گیا یا نہیں۔

پچھلے برس ممبئی ہائی کورٹ نے ایک فون ٹیپنگ کیس میں ایسا ہی فیصلہ سنایا تھا۔

ایک تاجر پر رشوت کے کیس میں جاری سی بی آئی تفتیش میں وفاقی حکومت نے فون ٹیپنگ کی اجازت دے دی تھی۔ لیکن عدالت نے اس ثبوت کو یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ ’یہ غیر قانونی ہے اور فون ٹیپنگ کسی عوامی ایمرجنسی یا حفاظت کے لیے ہی کی جا سکتی ہے۔‘ اس کیس میں یہ فون ٹیپنگ پرائیویسی کی خلاف ورزی ہے۔

واٹس ایپ

واٹس ایپ پرائیویسی کے لحاظ سے کتنا محفوظ ہے؟

’واٹس ایپ لا‘ نامی کتاب کے مصنف اور سائبر قانون کے ماہر پون دگل کہتے ہیں کہ ’اگر واٹس ایپ کی پرائیویسی پالیسی کو غور سے پڑھا جائے تو پتا چلے گا کہ جو بھی معلومات آپ وہاں دیتے ہیں وہ پبلک معلومات ہیں اور ان پر پرائیویسی کا کوئی حق لاگو نہیں ہوتا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ واٹس ایپ کو ہیک کرنا بھی مشکل نہیں ہے۔ وہیں ممبئی سے تعلق رکھنے والے سائبر امور کے ماہر پرشانت مالی کہتے ہیں کہ اگر کوئی سرکاری ایجنسی کسی صارف پر نظر رکھ رہی ہے تو واٹس ایپ اس صارف کو کوئی الرٹ یا وارننگ نہیں دیتا ہے۔ اگر کوئی جاسوسی کرنے والی کمپنی بھی صارف کے وہٹس ایپ میں ’سپائیڈر وئیر‘ ڈال دے تو صارف کو پتا نہیں چلے گا، جیسے پچھلے سال خبر آئی تھی کہ ایک اسرائیلی کمپنی نے پیگاسس نامی سپائڈر وئیر کئی واٹس ایپ اکاونٹس میں انسٹال کر دیا تھا۔

پرشانت مالی کہتے ہیں ’پرائیویسی کے بارے میں واٹس ایپ کی ایک ہی خاص بات ہے کہ پیغام اینکرپٹڈ ہوتے ہیں لیکن آج کل تو یہ بہت کمپنیاں کر رہی ہیں۔ اے ٹی ایم کارڈ بھی ایسے ہی ہوتے ہیں۔‘

’ساتھ ہی واٹس ایپ آپ کا میٹا ڈیٹا، جیسے کہ آپ واٹس ایپ پر کیا کرتے ہیں، کسے کیا بھیجتے ہیں، آپ کی پسند کیا ہے، کس گروپ کے ممبر ہیں، اس سب کے بارے میں معلومات واٹس ایپ کئی دنوں تک رکھتا ہے اور فیس بک اور انسٹاگرام کے ساتھ بھی شئیر کرتا ہے۔ یعنی ایک طرح سے صارف کی ’پروفائلنگ‘ کرتا ہے۔‘

موبائل

پون دگل کہتے ہیں ’جب جب تفتیشی ایجنسیاں تفصیلات مانگتی ہیں اور واٹس ایپ کے پاس وہ ہوتی ہیں تو وہ اکثر دیتی بھی ہے۔ اگر کوئی صارف اپنی ذاتی معلومات سے متعلق حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں کوئی قانونی کارروائی بھی کرنا چاہے تو واٹس ایپ امریکی ریاست کیلی فورنیا کی عدالتوں کے تحت آتا ہے، انڈیا کی نہیں۔‘

وہ کہتےہیں ’اگر آپ کوئی خفیہ معلومات شئیر کرنا چاہتے ہیں تو واٹس ایپ ایک اچھا پلیٹ فارم نہیں ہے۔ وہ آپ کی خفیہ معلومات کو بھی عام معلومات کی طور پر دیکھتا ہے۔‘

وراگ گپتا ایک اہم موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ’واٹس ایپ بنا کوئی رقم لیے صارفین کو سروس دے رہا ہے۔ تو اگر واٹس ایپ اربوں ڈالر کی کمپنی ہے، وہ سب کا سب ڈیٹا پر مبنی ہے۔ مطلب اس کے پاس بیچنے کے لیے ڈیٹا ہی تو ہے اور اسی سے اسے فائدہ ہوتا ہے۔ تو ایسی کمپنیاں جو تیسری پارٹی کے ساتھ ڈیٹا شئیر کرتی ہیں انھیں آپ پوری طرح محفوظ تصور نہیں کر سکتے۔ واٹس ایپ کا فیس بک جیسی ایپ کے ساتھ اشتراک ہے یعنی لوگوں کی ذاتی معلومات لیک ہونے کی گنجائش ہے۔‘

کیا واٹس ایپ پر لوگوں کا بھروسہ ڈگمگا جائے گا؟

پون دگل کہتے ہیں کہ بھروسہ ابھی ایک دم سے نہیں ڈگمگائے گا کیونکہ انڈیا میں لوگ ایک انقلاب کے دور سے گزر رہے ہیں۔

’ہر انڈین شہری اپنی معلومات شیئر کر رہا ہے، چاہے وہ ذاتی معلومات ہوں، پیشہ ورانہ معلومات ہوں یا سماجی معلومات ہوں۔ لوگوں کو یہ پتا نہیں کہ جو معلومات وہ شئیر کر رہے ہیں اس کا قانونی اثر کیا ہو گا۔ تو ایسے کیس تو سامنے آ رہے ہیں لیکن ان سے عوام کے ذہن میں کوئی گھنٹی نہیں بج رہی۔‘

پون دگل کہتےہیں ’انھیں لگتا ہے کہ یہ بڑے لوگ ہیں، ان کی تو چیٹ پکڑ سکتے ہیں، میری کوئی نہیں پکڑے گا۔ یہ جو غلط فہمی ہے اس کی وجہ سے لوگ اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے رہیں گے۔ لوگ جو واٹس ایپ استعمال کرتے ہیں وہ اس کے قواعد و شرائط نہیں پڑھتے۔‘

انڈیا میں پرائیویسی کا حق

پون دگل کہتےہیں ’انڈیا کا سائبر قانون پرائیویسی کے بارے میں مفصل نہیں حالانکہ سپریم کورٹ نے جسٹس پٹا سوامی بمقابلہ یونین آف انڈیا کیس میں واضح کیا تھا کہ پرائیویسی ایک بنیادی حق ہے۔‘

تاہم وہ اس کے نفاذ میں مسائل کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ وہ کہتےہیں ’لیکن انڈیا کے پاس پرائیویسی کے بارے میں مخصوص قانون نہیں۔ یہاں تک کہ ڈیٹا کی حفاظت سے متعلق قانون بھی نہیں ہے۔ حکومت بھی اسے توجہ نہیں دیتی۔ انڈیا کو چاہیے کہ سائبر اور ڈیٹا سکیورٹی کا قانون متعارف کرایا جائے اور اس شعبے کی کمپنیوں کی ذمہ داریوں کو بھی دوبارہ واضح کیا جائے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32538 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp