مشترکہ مستقبل کا حامل سماج


عالمی سطح پر اس وقت ایک جانب جہاں اقوام متحدہ کے قیام کی 75 ویں سالگرہ کی مناسبت سے مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے تو وہاں دوسری جانب انسانیت کو کووڈ۔ 19 کا سنگین چیلنج درپیش ہے۔ عالمی وبا کے باعث دنیا بھر میں اموات کی تعداد دس لاکھ کی حدوں کو چھو رہی ہے جبکہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ابھی تک وبا کی مکمل روک تھام و کنٹرول کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ہے۔ کووڈ۔ 19 کے باعث عالمی سطح پر اقتصادی سماجی شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور دنیا کو 1930 کی دہائی کے ”گریٹ ڈپریشن“ کے بعد سے اس وقت بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔ کووڈ۔ 19 کے ساتھ ساتھ حالیہ عرصے میں پاکستان اور چین سمیت دنیا کے اکثر ممالک کو سیلاب اور دیگر غیر معمولی قدرتی آفات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے جس سے معیشت پر مزید دباؤ بڑھاہے۔

اس تمام تر صورتحال میں اقوام متحدہ کے مزید فعال کردار سے ممالک کے درمیان اتحاد و تعاون اور مشترکہ اقدامات کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی ہے۔ اگر اقوام متحدہ کے کردار کی بات کی جائے تو اس کی عمارت تین بنیادی استونوں پر کھڑی ہے امن کا فروغ، انسانی حقوق کا تحفظ اور مشترکہ ترقی کی جستجو، لیکن ان مقاصد کا حصول صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب بڑے ممالک اقوام متحدہ کی مرکزی حیثیت کو تسلیم کریں گے اور اسے مضبوط کرتے ہوئے دنیا کو درپیش مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کوششیں کریں گے۔

بڑے ممالک کی بات کی جائے تو اس میں چین اور امریکہ سرفہرست ہیں۔ چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت ہے اور سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے اہم عالمی و علاقائی امور میں چین کی رائے انتہائی اہم تصور کی جاتی ہے۔ چینی صدر شی جن پھنگ نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر مشترکہ مستقبل کے حامل انسانی سماج کو فروغ دینے کی بات کی ہے۔ ان کی جانب سے تقریباً سات برس قبل یہ تصور پیش کیا گیا تھا کہ عالمگیر مسائل سے موئثر طور پر نمٹنے کے لیے مشترکہ مستقبل کا حامل انسانی معاشرہ تشکیل دیا جائے۔

اس معاشرے کے بنیادی اوصاف میں کھلا پن، اشتراکیت، شفافیت، دیرپا امن، عالمگیر سلامتی اور مشترکہ خوشحالی شامل ہیں۔ حقائق کے تناطر میں دیکھا جائے تو آج دنیا کو درپیش مسائل کے حل کی کلید یہی عوامل ہیں۔ چاہے کووڈ۔ 19 جیسے صحت عامہ سے متعلق مسائل ہوں یا پھر عدم مساوات، غیر متوازن اقتصادی ترقی، بڑھتے ہوئے تنازعات، موسمیاتی تبدیلی کا چیلنج، ان سب سے کوئی بھی ملک تنہا نہیں نمٹ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی قوم یا ملک دیگر ممالک سے کٹ کر پائیدار ترقی و خوشحالی پر گامزن رہ سکتا ہے۔

کووڈ۔ 19 کے ساتھ ساتھ دنیا میں تحفظ پسندی، یک طرفہ پسندی اور بالادست نظریات بھی پروان چڑھ رہے ہیں۔ بڑے اور ذمہ دار ممالک کی جانب سے دیگر ممالک سے معاشی طور پر علیحدگی کی باتیں سامنے آ رہی ہیں، ایک دوسرے پر الزام تراشی کی جا رہی ہے، اہم طاقتوں کے مابین تجارتی تناؤ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ امریکہ جیسا اہم ملک کئی عالمی معاہدوں اور تنظیموں سے بھی دستبردار ہو چکا ہے۔ ایسے رویے کسی بھی اعتبار سے عالمی امن، استحکام، مشترکہ ترقی اور عالمگیریت کے فروغ کے لیے سودمند نہیں ہیں۔ دنیا کی اہم طاقتوں کو تو اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے اور ایسی اجتماعی فکر اپنانے کی ضرورت ہے جس میں پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے عوام کی فلاح اور ان کو درپیش مسائل کا ادراک کیا جا سکے۔

بلاشبہ کووڈ۔ 19 اقوام متحدہ کی تاریخ میں صحت عامہ کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ کووڈ۔ 19 نے دنیا کو باور کروایا ہے کہ تمام ممالک کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، دنیا بھر کے عوام ایک برادری کی مانند ہیں جن کے دکھ سکھ سانجھے ہیں۔ دنیا اس وقت کووڈ۔ 19 کو شکست دینے کے لیے ویکسین کی تیاری کے اہم ترین مرحلے سے گزررہی ہے، چین پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ ویکسین کی تیاری کے بعد اسے عالمی سطح پر عوامی مصنوعات کا درجہ حاصل ہو گا۔ یہاں اقوام متحدہ اور اس کی زیلی تنظیموں کا کردار انتہائی اہم ہو گا بالخصوص ڈبلیو ایچ او کی مزید مضبوطی اور بھرپور حمایت کی فراہمی سے اتحاد، باہمی احترام اور تعاون کی حقیقی روح پر عمل پیرا رہتے ہوئے انسانیت کو کووڈ۔ 19 جیسے خطرات سے بچانے میں مدد مل سکے گی۔

مشترکہ مستقبل کے حامل سماج کی جستجو میں تعاون اور باہمی مفاد کی سوچ کے تحت ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں ہر ملک کو اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی تاکہ اس وبا کو شکست دیتے ہوئے دوبارہ سے ایک محفوظ دنیا کی تشکیل کی جا سکے۔ اس وقت دنیا کے پاس باہمی سودمند تعاون ہی آگے بڑھنے کا واحد موزوں انتخاب ہے لیکن اس کے لیے بڑے ممالک کو بالادست نظریات ترک کرنے ہوں گے، انہیں کسی بھی دوسرے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت یا پھر اسے دباؤ میں لانے کا کوئی حق نہیں ہے۔

دنیا میں مستحکم اور دیرپا قیام امن کی یہ لازمی شرط ہے کہ ہر ملک کی خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کا احترام کرتے ہوئے سردجنگ کے فرسودہ تصور اور سیاسی طاقت کے مظاہرے کو ترک کیا جائے۔ عالمی اور علاقائی تنازعات کو مشاورت اور مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے، دنیا میں تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے سہولیات پیدا کی جائیں، معاشی عالمگیریت کو مزید وسعت دی جائے اور ایک ایسی اشتراکی ترقی و خوشحالی کے لیے جدوجہد کی جائے جو سارے عالم کے مفاد میں ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).