چپ چاپ نوکری کرو


خطائے بزرگاں گرفتن خطا است، بچپن سے یہی کہا اور سمجھایا گیا کہ عمر، رشتے یا رتبے میں بڑے کی بازپرس کرنا غلط ہے۔
لیکن ہمارے یہاں عام ہے کہ دوسرے کو اکسایا جائے، چڑھ جا بیٹاسولی پر رام بھلی کرے گا۔ یعنی جو کہنی نہیں ہے کہہ ڈالو، جو کرنا نہیں چاہیے کر ڈالو اور پھرسب کان
بھرنے اور چپ رہنے پے اعتراض کرتے ہوئے، دعوے کرنے والے کہ میں ہوتا تو یوں کہتا۔۔۔ میں ہوتا تو وؤں کر جاتا۔ خاموشی سے دائیں بائیں چھٹ جاتے ہیں، بھگتنا اس معصوم کو پڑتاہے جو ان کی باتوں میں آ جائے۔

ہمارے خان صاحب جو کہ اس وقت وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر تعینات کیے گئے ہیں۔ آج کل ان کو بھی ایسے ہی بڑبولوں کا سامنا ہے۔ ناعاقبت اندیش، یعنی فرمائش بھی کیسی؟ چونچلے میں چونچلا جا کے منہ نوچ لا، جیسی۔ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم آرمی چیف سے ”باز پرس“ کریں کہ انہوں نے اپوزیشن کے سرکردہ نمائندگان سے ملاقاتیں اور باضابطہ میٹنگ کیوں کی؟

حاشا وکلا۔۔۔ دشمن کے کان بہرے۔۔۔ اب یہ ہو گا، جو آج تک نہ دیکھا نہ سنا؟ اور یوں بھی یہ آرمی چیف کی بے ضرر ایک غیر سیاسی مصروفیت کہی جا سکتی ہے۔ فوج کا بیانیہ آ چکا ہے کہ اس کا سیاست سے دور دور کا واسطہ نہیں تو جو کہہ دیا وہی سچ ہے، پنچ کہیں بلی تو بلی ہی سہی۔

اور رہے یہ بڑھ بڑھ کے بھڑکانے والے تو ان کا حال وہی ہے جو دوسرے کو پھلتے پھولتے دیکھتے ہیں تو کلسنے لگتے ہیں کہ کیسے اسے تاڑ کے جھاڑ پے چڑھائیں کہ منہ کے بل جا گرے۔

یعنی خان صاحب ”خطائے بزرگاں گرفتن“ کے مرتکب ہوں اور معاذاللہ شبہات میں مبتلا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے، ”باز پرس“ کرنا چاہیں۔ یقین کیجئے، یہ لفظ ”باز پرس“ لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کپکپا گئے، انگلیاں سرد پڑ گئیں۔ چھوٹا منہ اور بڑی بات۔ بڑی سی سیاہ شیشوں والی گاڑی کا شوق کسے نہیں مگر ایسا بھی کیا کہ محض جھولا لینے کو جان جھوکھم میں ڈال دی جائے۔ اس سے لنڈورے بھلے۔

یوں بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں جمہوری سربراہ اور سپہ سالار کا رشتہ گویا ساس بہو کا سا ہے، ساس بہو لاتی بے حد چھان پھٹک کے بعد ہے لیکن گھر کی چابیاں اوراختیارات میں حصے داری نہیں چاہتی۔ گھر کے سکون کی خاطر ایک ان کہا معاہدہ ہو جاتا ہے کہ آج کیا پکے گا، کس ترکیب سے پکے اور کتنا پکے گا؟ اس کا فیصلہ میں کروں گی اور پکاؤ گی تم! یا یوں کہہ لیں کہ آج کیا کھایا جائے گا، کیسے کھایا جائے گا اور کتنا کھایا جائے گا؟ یہ تقسیم بھی ہم کریں گے اور انتظام تم!

اب یہ نری بد تہذیبی ہے کہ دو دن کی آئی بہو بیگم یہ اختیار مانگ بیٹھیں یا گھر کا بجٹ خود بنانا چاہیں اور تو اور اس پے سوال اٹھائیں کہ ساس کس سے ملتی ہیں اور کیوں ملتی ہیں؟

بڑے چھوٹے کا کچھ لحاظ ہوتا ہے، ایک چپ سو بلا ٹالتی ہے اور ساس کے دل میں جگہ بھی بناتی ہے۔ ورنہ ایسی چپقلش میں ذرا سی بات بڑھتے بڑھتے وہ شاخسانہ بنتا ہے کہ بسا بسایا گھراجڑ جائے، ساس کا کیا ہے؟ نئی بہو لے ائی گی، تو اپنا سوچو بنو تو کہاں جائے گی؟

میری تو یہی صلاح ہے کہ خاں صاحب ایک جٹ وہ کام کیے جائیں جو ان کے سپرد کیا گیا ہے یعنی ایک جمہوری حکومت کا نظم و نسق چلانا، رہی ملک چلانے کی بات تو وہ بڑوں پے چھوڑ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).