نمبروں کے پھندے


نفسا نفسی کی اس دوڑ میں ہم اس قدر آگے نکل گئے ہیں۔ کہ جیسے بھی ہو بس ہم آگے بڑھتے جائیں اتنا آگے کے سب پیچھے رہ جائیں۔ اور ہر طرف ہماری واہ واہ ہو اس کی وجہ ہم خود ہوں یا اولاد بس ریس میں پہلا نمبر ہمارا ہو۔ اور اس سوچ میں اتنی شدت پسندی آ گئی ہے جس کے برے نتائج بھی ہمیں بھگتنے پڑتے ہیں۔

ایسی ایک خبر سننے کو ملی جس نے مجھے بہت دلبرداشتہ کر دیا۔ اور وہ تھی حال ہی میں آئے میٹرک کے نتائج اس خبر نے مجھے لکھنے پہ مجبور کر دیا۔

تو خبر کچھ یوں پڑھنے کو ملی، میٹرک میں نمبر کم آنے پر والدین نے بچے کو ڈانٹا اور بچہ دلبرداشتہ ہو گیا اور دلبرداشتہ عدیل نے گھر میں گندم میں رکھنے والی گولیاں کھا لیں۔ اس خبر نے دل کو تکلیف دی۔ کیا ہو گیا ہے ہماری نسل کے بچوں کو اور والدین کو وہ کس ریس کا حصہ بننا چاہتے ہیں، نمبروں کی دوڑ نے زندگی ہی ختم کر دی۔

اس طرح ماضی کے ایسے بہت سے واقعات ہیں ایسی خبریں جو نمبر کم آنے کی وجہ سے بچوں نے شرمندگی سے بچنے کے لیے خودکشی کر لی یا خود کو نقصان پہنچا لیا اور اس کی ایک وجہ ہمارے رویے بھی ہیں جو ہمارے کلچر میں بہت عام ہو گئے ہیں۔ اور اگر کوئی فیل ہو گیا ہے تو وہ تو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا اور اس کو وہ لوگ بھی سنا رہے ہوتے ہیں جہنوں نے خود کبھی سکول جیسی عمارت میں جانے کی کوشش ہی نہیں کی ہوتی۔

ایک اور واقعہ ہمارے قریبی عزیز کی بیٹی جس نے شاندار نمبر لیے تھے، تو مبارکباد کی غرض سے فون کیا تو اس طرف معاملہ ہی اور تھا اس کا رو رو کے برا حال تھا کہ میرے نمبر کم ہیں۔ اور میں سوچ رہی تھی ارے ہم کتنے نالائق تھے بھیا جو پاس ہونے کو یوں سمجھتے تھے گویا کوئی عظیم کارنامہ انجام دے لیا ہے۔ یہ نمبروں کی وبا نے ہمارے اندر سرایت کرنے سے انکار کر کے ہماری توہین کر دی مگر ہم نے بھی کاغذ کالے کر کے اعلیٰ تعلیم کا درجہ حاصل کر لیا۔

اور بھلا ہو گھر والوں کا جہنوں نے ہم سے ایسی کوئی امیدیں وابستہ نہیں کی تھیں کہ ہم بس ایک ہی صورت میں انہیں قبول ہوں گے جب شاندار نمبروں کا کارڈ لیں گھر میں داخل ہوں ورنہ ایسے طعنے سننے کو ملیں گے کہ لگے گا اس گناہ کبیرہ کی معافی کی ایک صورت ہے کہ اب موت کو گلے لگا لیا جائے۔

بات ادھر ہی ختم نہیں ہوتی جناب، ابھی تو اور بھی دکھ ہیں زمانے میں۔ تو بات کرتے ہیں طلبا کی جن کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھا دی گئی ہے بیٹا کچھ بھی ہو جائے تمہیں سب سے آگے نکلنا ہے انسانیت پیچھے رہ جائے تو خیر ہے اس کے کون سا نمبر ملنے ہیں۔ مگر تم دوڑ میں آگے رہنا اور سب میں نمایاں ہونا بھلا کس کو برا لگتا تو جناب بس ادھر سے آغاز ہو گیا اور اگر وہ اس مقام تک پہنچنے میں ناکام ہوا تو سب ختم شد۔

ہم نے یونیورسٹی میں یہ وقت بھی دیکھا ہے، سب اپنا کام اگلے سے ایسے چھپا لیتے تھے جیسے اگلا بندہ نظروں سے ہی اس لکھے کو چٹ کر جائے اور پیپرز کے دنوں میں سب ایسے چھپ کر پڑھتے تھے جیسے ان کے ساتھی کو علم ہو گیا تو وہ اس سے چند حروف زیادہ ہی نہ پڑھ لے۔ اس سب کے پیچھے وجہ ایک ہی جو ہم سب جانتے ہیں وہ بچارے نمبروں کی دوڑ۔

اصل میں یہ ہمارے ذہنوں کا فتور ہے اور ایک وبا ہے اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ورنہ اگر ماضی کی کتاب کھولی جائے تو ایسی عظیم ہستیاں جہنوں نے ڈھیروں ناکامیوں کے بعد خود کو منوایا ہے۔ ان میں ابراہم لنکن، بل گیٹس، تھامس ایڈیسن اور البرٹ آئنسٹائن جیسے نام جہنوں نے ناکامیوں سے سیکھا اور اپنا لوہا منوایا نہ کہ ناکامیوں کو گلے کا پھندا بنایا۔

البرٹ آئنسٹائن کی ایک بات بڑی دل کو لگتی ہے۔
” اگر کوئی شخص غلطی نہیں کرے گا تو وہ کچھ نیا سیکھنے کی کوشش کیسے کرے گا ”

نمبروں کی اس دوڑ نے بچوں کا بچپن جوانی سب چھین لیا ہے۔ اس وبا نے معصوم شرارتوں کی جگہ ذہنی دباؤ میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہم نے بچوں سے بچپن چھین کر نا جانے کون سا بوجھ لاد دیا ہے۔ اور ان معصوم ذہنوں میں نمبروں کا خناس بھر دیا ہے اور ہم یہاں سراسر غلط ہیں۔ ہم تو پڑھانا بھی اپنی مرضی کے مضامین چاہتے ہیں اور نتائج بھی اپنے مطابق چاہتے ہیں ادھر ہم سے بھول ہو رہی ہے جناب۔

ایک بچہ پڑھنا اکنامکس چاہتا اور ہم اسے میڈیکل میں بھیجنے کے درپے ہیں اگر اس میں وہ بہتر کارکردگی نہ دکھا سکا تو بھی قصور اس کا ہے وہ محنت نہیں کرتا اور ناکام ہو جاتا ہے۔ تو آپ کو نہیں لگتا کہ ادھر ذرا ہمیں نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

خدرا جینے دیں انہیں اور زندگی کی کتاب میں مرضی کے رنگ بھرنے دیں۔ اور ان کو اس قدر ذہنی دباؤ نہ دیں کہ ہمیشہ کامیاب ہو کر ہی آؤ بلکہ ناکامیوں سے سیکھنے کا ہنر بھی دیں۔ اور زندگی جیسی قیمتی شے کی حقیقت سے بھی آشنائی کروائیں۔ جو چند نمبروں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ تربیت کے انداز میں تبدیلی ضروری ہے اس مقام پر اس بات کو سمجھنے میں وقت نہیں لگائیں۔ ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔ اور والدین کے لیے بھی پیغام ہے ان معصوم ذہنوں کی آبیاری میں ایسا بیج بویا جائے جو ان کو کامیابی اور ناکامی میں اعتدال کا راستہ ہموار کرنے میں مدد دے۔ اور ناکامیوں میں حوصلہ ہار کر دنیا ہی نہ چھوڑ دیں بلکہ ان سے سیکھیں اور بار بار کوشش کریں۔

ہو سکتا ہے یہ ناکامی کسی بڑی کامیابی کا پیش خیمہ ہو مثبت سوچ سے زندگی جینا سیکھیں۔
بچوں کو بچائیں۔ نمبروں کی دوڑ سے باہر آ ئیں۔ بچوں کے گلے میں نمبروں کے پھندے نہ ڈالیں اور زندگی کے رنگوں سے آشنائی کا موقع دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).