کورونا وائرس سے متاثرہ بالی وڈ فلم انڈسٹری چھوٹی سکرین پر تکیہ کرنے پر مجبور


Bollywood actress Janhavi Kapoor

انڈیا میں یہ ایک غیر معمولی موسم گرما ہے۔ وجہ ہے ملک میں کورونا وائرس کی وبا جس کی وجہ سے کروڑوں شائقین جو انڈین فلمیں دیکھنے سنیما کا رخ کرتے ہیں، اس بار ایسا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ وبا کی وجہ سے ملک بھر میں سنیما گھر مارچ کے مہینے سے بند ہیں۔

لیکن ان افراد کے لیے تفریح مہیا کرنے کا ذریعہ بن رہی ہیں سٹریمنگ سروسز۔

ملک میں ایسی کئی فلمیں ہیں جنھوں نے سنیما کھلنے کا انتظار نہیں کیا اور اس کے بجائے سٹریمنگ سروس کا رخ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے نامی گرامی اداکار بھی فلموں کے بجائے سٹریمنگ سروس جیسے نیٹ فلکس، ایمازون پرائم، ڈزنی پلس ہاٹ سٹار وغیرہ کا رخ کر رہے ہیں۔

لیکن جہاں سنیما گھروں کی بندش ان کے مالکان کے بے چینی میں اضافہ کر رہی ہے، وہیں ایک بڑی تبدیلی میں تیزی آ گئی ہے اور وہ ہے چھوٹی سکرین اور بڑی سکرین میں فاصلوں کا کم ہو جانا۔

فلم جرنلسٹ اصیم چھابرا کا اس پر کہنا ہے کہ نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ’بالی وڈ کو اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانی پڑ رہی ہے اور کئی چیزوں پر انھیں سمجھوتا کرنا پڑ رہا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

کورونا: وہ وائرس جس نے بالی وڈ کی بھی کمر توڑ دی

کورونا وائرس سے کس طرح ٹھہر گیا ہے بالی وڈ

کیا بالی وڈ بدل رہا ہے؟

A wall mural with images of Bollywood actors, is seen under a road bridge in Mumbai

تبدیلی کی لہر

جون میں گلابو ستابو کے نام سے ایک فلم نیٹ فلکس پر ریلیز کی گئی جس میں معروف اداکار امیتابھ بچن نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔

اس کے بعد انڈیا کی معروف ریاضی دان شکنتلا دیوی کی زندگی پر مبنی فلم جاری کی گئی اور پھر انڈیا کی پہلی خاتون پائلٹ، گنجان سکسینا کی زندگی پر مبنی فلم ریلیز ہوئی۔ ان فلموں کے بنانے والوں کے لیے یہ سٹریمنگ سروسز سنیما کا نعم البدل بن کر سامنے آئی ہیں۔

ایسی فلمیں جو اپنے مواد کی وجہ سے انڈین سینسر بورڈ کا نشانہ بن جاتی ہیں، ان کے لیے سٹریمنگ سروس کا رخ کرنا سودمند ہے اور ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ انڈیا کی نوجوان اور بڑے شہروں میں رہنے والی آبادی بالی وڈ کے پرانے طرز کی کہانیوں اور گانوں پر مشتمل فلم دیکھنے سے تنگ آ گئے ہیں۔

نیٹ فلکس انڈیا کی نائب صدر برائے مونیکا شیرگل کہتی ہیں کہ ’کئی فلمسازوں کو یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ سٹریمنگ مستقبل کی نہیں حال کی بات ہے۔‘

نیٹ فلکس اور ایمازون پرائم ویڈیو کا پاس مارکیٹ کا سب سے زیادہ حصہ ہے۔ نیٹ فلکس نے صرف اس سال 18 نئے ڈرامے اور فلمیں جاری کی ہیں جبکہ ایمازون نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس سال 14 ڈرامے اور فلمیں جاری کریں گے۔

ڈزنی پلس ہاٹ سٹار نے مطابق وہ اس سال سات فلمیں جو سنیما میں جاری ہونی تھیں، اپنی سروس پر جاری کریں گے۔

Abhishek Bachchan with fans

اصیم چھابرا کہتے ہیں کہ سٹریمنگ سروس کی وجہ سے انڈیا میں ٹی وی اور سنیما کے درمیان فرق کم ہو رہا ہے۔

‘امریکہ میں یہ ہوتا ہے کہ ہالی وڈ کے کئی معروف اداکاروں نے پہلے ٹی وی میں کام کیا ہوتا ہے جس کے بعد وہ فلموں میں آتے ہیں۔‘

دوسری جانب انڈیا میں عمومی طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں پر فنکار پہلے فلموں میں ہی آتے ہیں لیکن جب سے سٹریمنگ سروس شروع ہوئی ہیں، کئی اداکاروں نے ادھر کا رخ شروع کر دیا ہے کیونکہ یہ مشہور ہے کہ بالی وڈ میں صرف ان کو موقع ملتا ہے جو جان پہچان سے آتے ہیں۔

لیکن سٹریمنگ سروس کی مقبولیت کے بعد اب دیکھنے میں آیا ہے کہ بالی وڈ کے اداکاروں نے بھی ان کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔

چھوٹی سکرین بن گئی بڑی سکرین

حال میں بالی وڈ میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکاروں میں سے ایک اکشے کمار نے اعلان کیا کہ ان کی فلم لکشمی بم ڈزنی پلس ہاٹ سٹار پر ریلیز ہونے والی ہے۔ اس کے بعد وہ اسی پلیٹ فارم پر اگلے سال ایک اور سیریز میں حصہ لیں گے۔ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اکشے کمار انڈیا میں بے حد مقبول ہیں اور ان کی شہرت شہروں اور گاؤں دونوں میں ہی ہے۔

اصیم چھابرا کہتے ہیں کہ اکشے کمار کا سٹریمنگ سروس میں کام کرنا اب سے چند برس قبل ناممکنات میں سے تھا۔

ابوڈانٹیا انٹرٹینمنٹ کے سربراہ وکرم ملہوترا کہتے ہیں کہ یہ تبدیلی نہایت حیران کن ہے اور جب ان کی کمپنی نے سٹریمنگ سروس کے لیے مواد بنانا شروع کیا تو لوگوں نے کافی شکوک اور خدشات کا اظہار کیا۔

’لوگ سمجھ رہے تھے کہ سٹریمنگ سروس کے لیے وہ لوگ کام کر رہے ہیں جنھیں فلموں میں موقع نہیں ملتا۔‘

لیکن ان کا اعتماد درست ثابت ہوا اور ان کی کمپنی کے کھاتے میں دو بڑی ریلیز کا سہرا جاتا ہے جو انھوں نے آن لائن سروس کے لیے کیں، جن میں سے ایک ابھیشک بچن کی فلم ہے۔

امیتابھ بچن کے بیٹے ابھیشک بچن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بحیثیت اداکار آپ کو دیکھنا ہوتا ہے کہ اب اگلا کام کہاں سے ملے گا۔ اور آپ ایسی کہانیاں ڈھونڈتے ہیں جنھیں سامنے لانا ہوتا ہے۔ اور میرے خیال میں یہ بہت زبردست پلیٹ فارم ہے اور یہ کہیں نہیں جا رہا۔‘

اسی طرح کئی ایسے اداکار جنھوں نے فلموں میں اپنے جوہر دکھائے تھے، اب سٹریمنگ سروس کے ڈراموں میں کام کر رہے ہیں۔

حال ہی میں انیل کپور، نصیر الدین شاہ، شبانہ اعظمی اور حتیٰ کہ کاجول اور کرشمہ کپور نے بھی سٹریمنگ سروس کے لیے کام کیا ہے۔

انڈیا کے سب سے بڑے سٹوڈیوز میں سے ایک، دھرما پروڈکشن کے سربراہ اپووروا مہتا کہتے ہیں کہ ‘آپ آنے والے مہینوں میں ایسے کئی اداکاروں کو دیکھیں گے جو ان سٹریمنگ سروس کے لیے کام کر رہے ہیں۔’

لیکن جہاں ایک جانب سٹریمنگ سروس کا مستقبل روشن نظر آ رہا ہے، وہیں سنیما گھروں کا مستقبل بے یقینی کا شکار ہے۔

Bollywood superstars, including Akshay Kumar, virtually launch Disney+ Hotstar's Multiplex service

بالی وڈ کے بدلتے حالات

انڈیا میں سنیما گھروں کی چین انوکس کے سربراہ الوک ٹنڈن کہتے ہیں کہ ‘سنیما گھروں ہو نقصان اٹھانا ہو گا۔ ہم نے سب سے پہلے اپنا کاروبار بند کیا، اور سب سے آخر میں کھولیں گے۔’

انڈیا میں سنیما گھروں کے مالکان نے حال میں انڈیا کے بڑے اخبارات میں اشتہار شائع کروائے جس میں انھوں نے اپیل کی کہ انھیں کھولنے کی اجازت دی جائے۔

انھوں نے اس اشتہار میں دعویٰ کیا کہ انڈین فلم صنعت کو گذشتہ چھ ماہ میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ لیکن یہ مالکان پریشان بھی ہیں کہ اگر سنیما گھر کھولے گئے تو کیا ہو گا۔

ان کو ایک بڑا خدشہ تو یہ ہے کہ کیونکہ زیادہ تر بالی وڈ فلمیں سٹریمنگ سروس پر جا رہی ہیں تو سنیما میں کون دیکھے گا۔ دوسرا خدشہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کے باعث سماجی دوری اختیار کرنے کی وجہ سے ان کے سنیما گھر اب دوبارہ کبھی بھر نہ سکیں گے اور اگر مستقبل میں پھر وبا پھیلتی ہے تو انھیں بند کرنا پڑ جائے گا۔

مگر فلم نقاد سیبل چیٹرجی کے مطابق سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب بالی وڈ دوبارہ معمول پر آئے گا، تو وہ بدل چکا ہو گا۔ ‘بجٹ کم ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ سکرپٹس بدل جائیں گے۔ خوبصورت جگہوں پر شوٹنگ نہیں ہو گی اور حتیٰ کہ بڑے نام والے اداکاروں کو بھی کم معاوضہ دیا جائے گا۔’

چیٹرجی کا کہنا تھا کہ یہ رحجان شاید 2023 تک جاری ہے اور انڈسٹری پر کافی گہرا اثر چھوڑ جائے۔

دوسری جانب، سال کی دو سب سے بڑی فلمیں جنھیں مارچ اور اپریل میں ریلیز ہونا تھا، ابھی تک سنیما گھروں میں آنے کے لیے انتظار کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک فلم ہے سوریاونشی، جو کہ ایک پولیس ایکشن ڈرامے پر مبنی فلم ہے جبکہ دوسری فلم ’83 ہے جو کہ انڈیا کی 1983 میں کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کی کہانی ہے۔

دونوں ہی فلموں میں بڑے نام والے فنکار شامل ہیں اور دونوں کو امید ہے کہ ان کی وجہ سے شائقین سنیما گھروں میں واپس آئیں۔ اور اسی بنیا پر چند سنیما گھروں کے مالکان نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ الوک ٹنڈن کہتے ہیں: ‘ہمیں بس ایک بلاک بسٹر مووی کا انتظار ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp