حسین شہید سہروردی پر کیا گزری؟


سہروردی صاحب سے زبردستی استعفیٰ لینے کے بعد سرکاری افسران میں ایک ایسا طبقہ بھی تھا جو اس کے خلاف تھا۔ ان کی ہمدردیاں مکمل طور پر حُسین شہید کے ساتھ تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ کسی طور یہ معاملہ عوامی عدالت تک پہنچایا جائے۔ بیوروکریسی میں آج بھی ایسے لوگ ہیں جو کسی نہ کسی حکومت کے وفادار ہوتے ہیں۔ لیکن حکمرانوں پر برا وقت آتے ہی وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں یا سیاسی وفاداریاں تبدیل کر لیتے ہیں۔ معروف سیاست دان اور کاروباری شخصیت بیگم سلمیٰ احمد اپنی خود نوشت سوانح عمری میں اس حوالے سے لکھتی ہیں کہ:

”آفتاب احمد خان(ماموں صاحب) حسین شہید سہروردی کے پرنسپل سیکریٹری تھے۔وہ اسکندر مرزا کے صدر بننے سے قبل پاکستان کے وزیرِ اعظم تھے۔ جب ایوب خان نے عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد مارشل لاء نافذ کیا، سول سروس کے ایک گروہ نے ایک دوسرے سے رابطے استوار کیے اور طے کیا کہ مارشل لاءکے نفاذ کے خلاف عوامی رائے بنائی جائے۔ انھوں نے اس حوالے سے پوسٹرز بھی چھپوائے جو پورے کراچی میں لگائے جانے تھے۔ لیکن اس سے قبل کہ وہ یہ عمل انجام دیتے، راز فاش ہو گیا۔ پوسٹرز قبضے میں لے لیے گئے۔ منصوبہ سازوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں نمایاں انکل آفتاب تھے۔ ان کی جیل سے رہائی کے لیے بارہا کوششیں کی گئیں۔

حسین شہید سہروردی پر ان کے مخالفین کا سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ انھوں نے بنگال میں فسادات کے دوران گاندھی جی سے ہاتھ ملایا اور کلکتہ میں گاندھی جی کے ساتھ رہائش اختیار کی۔ جب کہ گاندھی جی چاہتے تھے کہ وہ مشترکہ بنگال کے شورش زدہ علاقے نوا کھلی کا دورہ کریں جہاں اس وقت کے بدترین ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے۔ سہروردی کا خیال تھا کہ گاندھی جی کا نواکھلی کا دورہ ان فسادات کو مزید بڑھاوا دے گا اگر وہ اس کے بجائے کلکتہ میں رہیں اور فسادات ختم کرنے کی کوشش کریں تو یہ زیادہ بہتر ہو گا۔ سہروردی نے جب اپنا یہ منصوبہ گاندھی جی کو پیش کیا تو گاندھی جی کا موقف تھا کہ وہ اس شرط پر کلکتہ ٹھہر سکتے ہیں کہ سہروردی بھی ان کے ساتھ وہاں رہیں۔ سہروردی نے اس سے اتفاق کیا اور پھر آہستہ آہستہ ان دونوں رہنماﺅں کی کوششوں سے ہندو مسلم فسادات ختم ہوگئے۔

شائستہ سہروردی اکرام اللہ سہروردی کی سوانح عمری میں لکھتی ہیں کہ جب انھوں نے حسین شہید سہروردی سے سوال کیا کہ یہ تجربہ کیسا رہا؟ تو ان کا جواب تھا :

”یہ سب ٹھیک تھا لیکن کھانا بہت بد ذائقہ تھا۔لیکن اس دورانیے نے خطرات کو کم کیا ۔آہستہ آہستہ ماحول تبدیل ہوتا گیا اور یہ معجزہ ایک مختصر عرصے میں برپا ہو گیا۔ کلکتہ کے مسلمان اور ہندو گو کہ مختصر عرصے کے لیے یک جا ہوگئے اور 15 اگست کو آزادی کا سورج ایک پُرامن ماحول میں طلوع ہوا۔“

حسین شہید سہروردی کی پاکستان میں آئین ساز اسمبلی کی نشست اس بنیاد پر خالی کر دی گئی کہ جو شخص تقسیمِ ہند کے بعد چھ ماہ کے اندر اندر پاکستان کے کسی علاقے میں رہائش اختیار نہیں کر پاتا وہ اپنی نشست پر برقرار نہیں رہ سکتا۔ اس قرارداد کے تحت شہید سہروردی نے کوشش کی کہ مشرقی پاکستان میں انھیں کوئی رہائش گاہ مل جائے۔ شائستہ اکرام اللہ کے مطابق وہ جون 1948 میں ڈھاکہ گئے لیکن ان کی آمد کے چوبیس گھنٹوں کے بعد انھیں ڈھاکہ بدری کا نوٹس دیا گیا۔ یہ نوٹِس آئی جی ذاکر حسین کی ہدایات پر سٹی مجسٹریٹ نے ان سے وصول کر وایا۔ یہ نہ صرف ڈھاکہ بدر کیے جانے کا نوٹِس تھا بلکہ اس میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ آئندہ چھ ماہ کے لیے مشرقی پاکستان داخل نہیں ہو سکتے۔

پیر علی محمد راشدی اپنے کالموں کے مجموعے رودادِ چمن کے صفحہ نمبر 51 پر اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ:

”شہید سہروردی مرحوم وہ شخص تھا جو بضد مشرقی پاکستان کو بنگال میں شامل کرانے کے لیے لڑ جھگڑ کر، لیجسلیٹرس کنونشن سے قرارداد منظور کروا کرمشرقی پاکستان کو بنگال میں لے آیا۔ بحیثیت وزیرِاعلیٰ متحدہ بنگال اس نے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران مسلمانوں کی اتنی خدمت اور حمایت کی تھی کہ وہاں کے ہندو آخر تک یہ زخم فراموش نہیں کر سکے، نہ صرف یہ بلکہ پاکستان تحریک کے زمانے میں وہ سارا عرصہ مسلم لیگ بنگال کا جنرل سیکریٹری اور مسلم لیگ پارٹی کا روحِ رواں رہا۔

اس شخص کا کیا حال بنا؟ پہلے”غدارِ پاکستان“ کے خطاب سے نوازا گیا، مسلم لیگ سے نکالا گیا اور ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ وہ پاکستان میں داخل ہونے ہی نہ پائے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ یہاں کی نوکر شاہی کے نامزد گورنو جنرل مرحوم غلام محمد کو اپنے جوڑ توڑ کو مقبول عام بنانے کے لیے اسی سہروردی کے تعاون کی شدید ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ اس کو جینیوا سے بلا کر پاکستان کا وزیرِ قانون بنایا گیا اور ایک اور چکر میں اس کو کچھ مہینوں کے لیے وزیرِ اعظم بھی بننے دیا گیا۔ آخر میں ایوب خان کا دور آیا اور اسی وزیرِاعظم کو جیل میں ڈال دیا گیااور ”ایبڈو“ کے تحت سیاست کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا۔

اس قدر بے آبروئی کے بعد وہ غریب جان چھڑا کر ملک سے ہی باہر نکل گیا اور وہیں جا کر مرنا بھی منظور کر لیا۔ (حال ہی میں ان کی بیٹی بیگم اختر سلیمان کا اخباری انٹرویوشائع ہوا ہے جس میںیہ راز کھولا گیاہے کہ سہروردی مرحوم طبعی موت نہیں مرے تھے مگر ان کو نوکر شاہی نے مروایا تھا)۔“ حسین شہید سہروردی کا انتقال 5ستمبر 1963کوجلا وطنی کے دوران بیروت کے ایک ہوٹل میں پر اسرار حالت میں ہوا۔

حسین شہید سہروردی کے ساتھ پاکستان میں جو سلوک ہوا اس کی ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ انھیں اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ کا نام تبدیل ہونا چاہیے اور اس کے دروازے مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کے لیے بھی کھلے ہونے چاہئیں۔ مسلم لیگ کا نام پاکستان لیگ ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر صفدر محمود اپنی کتاب ”مسلم لیگ کا دورِ حکومت“ کے صفحہ نمبر 46 پر رقم طراز ہیں:

”سہروردی کا نظریہ انتہا پسندانہ فکر کا آئینہ دار تھا اور اس زمانے میں اسے قبول نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان کی یہ دلیل دو نکات پر مبنی تھی۔

اولاً: مسلم لیگ نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔اس لیے نئے حالات کے مطابق اس کے آئےن میں ترمیم ہونی چاہیے ورنہ اس بات کا خدشہ ہے کہ حکومت کی پالیسیاں صرف مسلمانوں کی فلاح وبہبود تک مرکوز رہیں گی اور اقلیتی فرقے نظر انداز ہو کر رہ جائیں گے۔

ثانیا: بھارت میں انڈین یونین مسلم لیگ کو اپنی رکنیت کے دروازے بھارت کے تمام شہریوں پر کھول دینے چاہئیں، تا کہ اس کی رکنیت صرف مسلمانوں تک محدود نہ رہے اور اسے دوسرے فرقوں کے لوگوں کی بھی حمایت و تائید حاصل ہو سکے۔“

اس ضمن میں وہ مزید لکھتے ہیں کہ:

” قائد اعظم نے بی بی سی کے نمائندے رابرٹ سمسن کو ایک انٹرویو دیا جس میں انھوں نے کہا کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ مسلم لیگ کے دروازے غیر مسلموں پر کھول دیے جائیں۔ کیوں کہ ابھی اس کے لیے مسلمانوں کی رائے عامہ تیار نہیں۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments