بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا!


ملک کی سیاسی قیادت ہمیشہ کی طرح عسکری قیادت سے پس پردہ اپنی ملاقاتوں کو راز میں ہی رکھنا چاہتے ہیں، مگر یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ عسکری قیادت ہی نواز شریف کے بیانیہ کی حقیقت کو قوم کے سامنے بے نقاب کرنا چاہتی ہے۔ ہماری سیاقائدین ایک طرف کہتے ہیں کہ فوج سیاست میں مداخلت نہ کرے اور دوسری طرف بالواسطہ رابطوں سے ریلیف بھی چاہتے ہیں، ایک طرف ان کا بیانیہ ہے کہ ان کی لڑائی عمران خان سے نہیں، انہیں لانے والوں سے ہے اور دوسری طرف وہ خود ان لانے والوں سے اپنے ایلچی کے ذریعے معاملات حل کرنے کی درخواست کر رہے ہیں۔

اگر میاں نواز شریف مایوس ہو کر اپنے خطاب میں براہ راست فوجی قیادت کو نشانہ بنانے سے گریز کرتے تو شاید یہ راز فاش نہ کیا جاتا کہ ان کی طرف سے فوجی سربراہ کو مداخلت کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ ماضی میں بھی سیاسی قائدین کا یہی وتیرہ رہا ہے کہ دن میں جمہوریت کے فروغ کے بیانات دیتے نہیں تھکتے، جبکہ رات کے پچھلے پہر ملاقاتوں میں امریت کو دعوت دیتے رہے ہیں۔ اس تنا ظر میں توقع نہیں کی جا سکتی کہ فوج کا محکمہ تعلقات عامہ ایک بے بنیاد موقف کو میڈیا پر پیش کرے گا۔

سیاسی قیادت کی ملاقاتوں کے ریکارڈنگ بھی موجود ہو گی، جو گفتگو ہوئی اسے بھی محفوظ کیا جا چکا ہوگا، اس لئے محمد زبیرایلچی بن کر بری طرح پھنس گئے ہیں، وہ جتنا مرضی وضاحتیں کرتے رہیں، اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتے کہ میاں نواز شریف کے کہنے پر آرمی چیف سے ملنے گئے، مگر مطلوبہ ریلیف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کہ ماضی میں سیاسی و عسکری قیادت کی رات کی تاریکی میں نہ صرف ملاقاتیں ہوتی رہیں، بلکہ مطلوبہ نتائج بھی حاصل کیے جاتے رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان اس بارے میں خاصے متحرک اور مشہور تھے، مگر اب لگتا ہے منظر نامہ تبدیل ہو گیا ہے۔ آرمی چیف کا محمد زبیر کو نواز شریف یا مریم نواز کے سلسلے میں کوئی مدد فراہم کرنے سے انکار کرنا، اس امر کا اشارہ ہے کہ فوج اب کسی کو آؤٹ آف دی وے سپورٹ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی ہے، تاہم اے پی سی سے پہلے پارلیمانی رہنماؤں کی عسکری قیادت سے ہوئی ملاقاتوں کا چرچہ زبان زد عام ہے، سیاسی قیادت کی جانب سے ملاقاتیں چھپانے اور جھٹلانے کی بہت کوشش کی گئی، لیکن ایسی باتیں شیخ رشید کی موجودگی میں بھلا کہاں چھپتی ہیں؟

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کس قدر کھوکھلی اور اعتماد سے محروم ہے۔ اگر اپنے ہی ملک کی فوج کے افسران سے ملتی ہے تو اسے ایسے چھپاتی ہے کہ جیسے کوئی بہت بڑا جرم کر لیا، حالانکہ کئی معاملات ایسے ہیں کہ جو فوجی و سیاسی قیادت کو مل کر حل کرنے ہوتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے ملاقات کی تصدیق کے علاوہ وضاحت نہیں کی گئی، وگرنہ کچھ مزید راز بھی سامنے آ سکتے تھے۔ سیاسی قائدین میں اتنی جرات ضرور ہونی چاہیے کہ ایسے کسی بلاوئے پر انکار کریں یا پھر خود آکر سب کو بتائیں کہ ان کی عسکری قیادت سے کیا بات ہوئی، تاکہ ایسی ملاقاتوں کے بعد پھیلنے والی افواہوں کا تدارک کیا جا سکے۔ سیاسی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں والی صورت حال پیدا کر کے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا، الٹا ان کی جگ ہنسائی کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔

اپوزیشن رہنماؤں کی عسکری قیادت سے ملاقاتوں کا راز افشا ہونے کے بعد جگ ہنسائی کا سامناہے، اس کے باوجود ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی آئندہ قومی سلامتی سے متعلق کسی معاملے پر ایسے حساس اجلاس میں شریک نہیں ہوگی، کیونکہ ان کیمرہ اجلاس کی تفصیلات سامنے نہیں لائی جاتیں، لیکن کچھ غیر ذمہ دار لوگوں نے بولنے پر مجبور کیا ہے۔ اس اجلاس کی باتیں کرنے والا جس کا بھی ترجمان ہے، انہیں چاہیے کہ اسے چپ کرائیں، جبکہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ ابھی تو انہوں نے چند ملاقاتوں کا بتایا ہے، اگر فون کا ڈیٹا دکھا دیا تو چھپتے پھریں گے۔ سیاسی قیادت کی ملاقاتیں اور فون پر باتیں عوام سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اتنی کھلم کھلازبان زد عام نہیں تھیں، یہ اس لحاظ سے تو بہتر ہیں کہ عوام اپنے نمائندو ں کا حقیقی چہرہ دیکھنے کے ساتھ ان کے کردار سے بھی واقف ہو گئے، تاہم سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان رابطے و معاملات کے حوالے سے جاری بحث کسی کے بھی مفاد میں بہتر نہیں ہے، کیونکہ بعض اہم معاملات پر سیاسی و عسکری قیادت کو ملاقات کرنا پڑتی ہیں، ملکی و ریاستی امور پر تبادلہ خیال کی ضرورت ہوتی ہے، اس ایشو کے تناطر میں آئندہ ایسے معاملات پر ملاقات اور گفتگو مشکل امر بن جائے گی، شاید اسی لیے میاں نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے عسکری قیادت سے نہ ملنے کا عندیہ دیا ہے۔

بلا شبہ عسکری قیادت اور سیاستدانوں کے ایسی ملاقات میں کوئی حرج نہیں کہ جس میں ملکی امور کے حوالے سے تبادلہ خیال اور مشاورت کی جاتی ہے۔ فوج بھی حکومت کا حصہ اور ماتحت ادارہ ہے اور ہر منتخب حکومت کے ساتھ ایک پیج پر ہے، ملک کے بہت سارے معاملات میں ان کا نکتہ نظر اہمیت کا حامل ہوتا ہے، لیکن اگر اس سے ہٹ کر ملاقات خالص ذاتی نوعیت کی نہیں تو پھر اسے سیاسی گردان کر میڈیا میں اچھالنا باہمی اتفاق رائے کے حق میں بہتر نہیں یا تو ملاقات سے ہی احتراز برتا جاتا یا پھر ملاقات کو راز ہی رکھا جانا چاہیے تھا۔

سیاستدان ایک دوسرے پر خفیہ ملاقاتوں کا الزام لگاتے رہتے ہیں، اس کی کبھی کسی جانب سے پوری طرح تصدیق ہوئی، نہ انکار کیا جاتا رہا ہے، یہ پہلا موقع ہے کہ راز کو راز نہیں رہنے دیا گیا، اس سے فی الوقت جو بھی تاثر پھیلا کم ازکم ملاقاتوں کی تو تصدیق ہوگئی، تاہم اس سے عدم اعتماد کی ایک ایسی اینٹ رکھ دی گئی کہ آئندہ احتراز اور پرہیز برتنے کا وتیرہ اختیار کیا جائے گا، جہاں تک سیاسی قائدین کی جگ ہنسائی کا تعلق ہے تو سیاستدان بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا والی کیفیت کے حامل ہوتے ہیں، لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر بہتر ہوگا کہ اس موضوع کو بند اور شیخ رشید کو راز افشا کرنے سے روک دیا جائے اور کوئی ایسی صورتحال پیدا نہ ہونے دی جائے جو کہ مزید عدم اعتماد کاباعث بنے، تاہم سیاستدانوں نے جو بظاہر جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، اس کا پردہ چاک ہو کر عوام کے سامنے آ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).