ایک شکریہ، ایک مبارکباد


\"waqar

دریاؤں اور پہاڑوں کی اس پاک سر زمین کا شاعرانہ سا اصول ہے کہ ’’اس کو چھٹی نہ ملی، جس نے سبق یاد کیا‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہماری ناقص فہم نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ گویا جسے سبق یاد ہوا، اسے گھر نہیں جانے دیا جاتا اور جو اپنا سبق یاد نہیں کرتا یا سبق نہیں سیکھتا، اس کو چھٹی مل جاتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ اس کی چھٹی کرا دی جاتی ہے۔ تاہم جنرل (ر) راحیل شریف کا معاملہ مختلف ہے کہ انہوں نے خوب دلجمعی اور کامیابی سے اپنا سبق یاد بھی کیا اور بروقت اور با عزت چھٹی کر کے گھر بھی چلے گئے۔

ہمارے اسکول میں ایک سخت گیر ماسٹر دین محمد کلاس کو تلقین کیا کرتے کہ اپنا سبق اچھی طرح پکا کر آیا کرو، ورنہ جس کا سبق کچا ہوا، اس کی خیر نہیں۔ اس سفاک دھمکی کا مطلب یہ تھا کہ جس بچے کو سبق یاد نہ ہوا، اسے سخت سزا ملے گی، جو انتہائی سزا یعنی اسکول سے مستقل چھٹی بھی ہو سکتی ہے۔ ماسٹر صاحب یہ انتہائی سزا دینے سے قبل طالب علم کو کئی مرتبہ مہلت دیتے کہ وہ سدھر جائے لیکن بد قسمتی سے ہر جماعت میں دو دو سال لگا کر بھی رعایتی نمبروں سے پاس ہونے والا خان بہادر کبھی بھی اس مہلت سے فائدہ نہ اٹھا سکا۔ آخری مہلت گذر جانے کے بعد اپنی ’’برطرفی‘‘ کے دن بھی جب وہ سبق نہ سنا سکا تو اس نے دردمندانہ اپیل کی کہ’’استاد جی! قسم لے لیں، میں نے گھر میں سبق پکا پکا کے، پکا پکا کے، پکا پکا کے چھوڑا مگر کم بخت پھر بھی کچا رہ گیا‘‘۔

ملک عزیز میں کئی سول و عسکری خان بہادروں کو اپنے اقتدار کے دوران سبق کچا رہ جانے یا غلط سبق پڑھنے پر ملکی اور عالمی ماسٹروں نے واپس گھر یا اگلے جہان کا رستہ دکھا دیا۔ سابق آرمی چیف جنرل (ر)راحیل شریف بھی ماسٹر دین محمد کا کردار ادا کرتے ہوئے سول حکومت کی چھٹی کرا سکتے تھے کہ رسم دنیا بھی تھی، موقع بھی تھا اوردستور بھی۔ وہ انتہائی قدم اٹھا سکتے تھے کہ ایک تو وہ ملک کے مقبول ترین آرمی چیف تھے اور اوپر سے ہمارے سیاستدانوں کا سیاسی سبق بھی ابھی پختہ نہیں ہوا۔ انہیں اس کارِ خیر کے لیے اُکسایا بھی گیا اور ہاتھ جوڑ کر رقعت انگیز اپیلیں بھی کی گئیں مگر وہ جو ایک پنجابی محاورے کا ترجمہ ہے کہ اس کا سبق اگلے ورق پر ہے، یعنی وہ زیادہ سمجھ دار اور چالاک ہے۔ اپیل کنندگان ٹرپل ون بریگیڈکی راہ تکتے رہ گئے مگر ان کے مقابلے میں راحیل شریف کا سبق کتاب کے اگلے ورق پر تھا، سو انہوں نے ’’جانے کی باتیں جانے دو‘‘ برانڈ درخواستوں کو درخور اعتنا سمجھے بغیر اپنا سفر جاری رکھا اور اپنے ادارے اور پیشہ ورانہ ساکھ پر حرف نہ آنے دیا۔ وہ اپنے اس سفر کے اختتام پر انتہائی باوقار انداز میں واپس گھر کو لوٹ گئے۔ اپنی گزشتہ داغ داغ تاریخ کو دیکھتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کرنا بنتا ہے۔

جنرل (ر) راحیل شریف کا دور سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے کچھ زیادہ خوشگوار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کامقدمہ ہو، 2014ء کا اسلام آباد دھرنا ہو، سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو، ’’را‘‘ کے کل بھوشن یادیو کی گرفتاری اور ایک حساس اجلاس کی کارروائی لیک ہونے کے حوالے سے حکومتی طرزِ عمل پر آرمی کے تحفظات ہوں، کھمبوں پر بینر لٹکانے کے واقعات ہوں یا پانامہ لیکس کا معاملہ، ان تعلقات میں کئی مقامات آہ و فغاں بھی آئے۔ البتہ جنرل صاحب نے کبھی ان معاملات کوجواز بنا کر اپنی پیشہ ورانہ حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ماسٹر دین محمد بننے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے مقابلے میں انہوں نے ایک ایسی خون آشام مخلوق کے خلاف جرأت مندانہ آپریشن کا فیصلہ کیا، جس نے عشروں سے ملک کو یرغمال بنا رکھا تھا۔ نیزاقتصادی راہداری اور اپنے عہدے کی معیاد میں توسیع نہ لینے کے حوالے سے بھی ان کا کردار خراجِ تحسین کا مستحق ہے۔

اب بال نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کورٹ میں ہے، جن سے عوام بجا طور پر اپنے پیش رو کے مشن کو آگے بڑھانے کی توقع رکھتے ہیں۔ جنرل باجوہ پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے مالا مال ایک متحرک اور مدبر شخصیت ہیں۔ انہوں نے اس سے قبل جہاں جہاں بھی اپنی خدمات انجام دیں، وہاں اپنی بہترین مہارت، جذبے اور لگن سے نام کمایا۔ وہ دہشت گردی کے عفریت اور انتہا پسند گروہوں کو ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور ان کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔ ان کی صلاحتیوں اور قابلیت کا بڑا ثبوت بھارتی آرمی چیف کا بیان ہے کہ جنرل باجوہ انتہائی پروفیشنل ہیں، جن سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ فیروز ایچ خان نے ایٹمی پروگرام کے بارے میں اپنی کتاب میں جنرل باجوہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ جمہوریت اور سویلینز کی بالادستی، نیز پالیسی سازی میں سویلینز کے حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی حمایت پر یقین رکھتے ہیں۔ جب پاک فوج کا سربراہ سویلین حکومت کی بالا دستی پر یقین رکھتا ہو تو پھر بجا طور پر توقع کی جا سکتی ہے کہ اب سول ملٹری تعلقات میں بہتری آئے گی اور مابین فریقین تناؤ کا خاتمہ ہوگا، جو ملک کی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جنرل باجوہ ملک کو درپیش چیلنجز، افغانستان کے ساتھ خراب ہوتے تعلقات، روایتی حریف بھارت کے ساتھ سرحدی جھڑپوں میں اضافے اور ملک میں موجودہ انتہا پسند گروہوں اور جماعتوں کے اثرورسوخ میں اضافے پر اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے بخوبی قابو پا لیں گے۔ نیز جمہوریت اور ملکی ترقی کے حوالے سے ان کا دور جنرل (ر) راحیل شریف کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر ثابت ہوگا۔

یہاں پر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ کوئی بھی با شعور اور سیاسی بلوغت کا حامل شہری حکومتی نظم و نسق میں فوج کے کردار کا حامی نہیں اور وہ ملکی مشینری فقط منتخب حکومت کے ذریعے چلانے کا خواہاں ہے۔ تاہم ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ فوج اس ملک کی سب سے بڑی حقیقت اور ہمارا سب سے زیادہ با رسوخ ادارہ ہے، جس سے آنکھیں چرانا ممکن نہیں۔ سو جنرل باجوہ کی تمام تر جمہوریت پسندی کے باوجود کہنا چاہیے کہ جب تک ہمارے سیاستدان نابالغ سیاست، بد عنوانی اور ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر اپنا حقیقی سیاسی اور جمہوری سبق نہیں پکاتے اور گزشتہ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے، کسی نہ کسی ماسٹر دین محمد کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہے گی۔ بد قسمتی سے وہ آمریت کے دوران خان بہادر کی طرح اپنا جمہوری سبق پکا پکا کے چھوڑتے ہیں اور بحالی جمہوریت کی تحریکیں اور میثاقِ جمہوریت جیسے اعمال بجا لاتے ہیں لیکن جمہوریت بحال ہوتے ہی اپنا سبق پھر بھول جاتے ہیں اور عوامی فلاح و بہبود کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کی بجائے مال بنانے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں جُت جاتے ہیں۔ تاہم جنرل باجوہ سے توقع ہے کہ وہ عدم مداخلت کی پالیسی کے تحت سیاستدانوں کو جمہوری نظام کے تسلسل کے ذریعے سبق سیکھنے کا موقع دیں گے۔

حرفِ آخر کے طورپر بارِدگر عرض ہے کہ جب تک ہمارے سیاسی خان بہادروں کا سبق کچا ہے، راحیل شریف اور قمر باجوہ جیسے فوج کے سربراہان منتخب نمائندوں کے مقابلے میں عوام میں زیادہ مقبول رہیں گے۔ عوامی تھڑوں سے لے کر سوشل میڈیا اور چوپالوں سے لے کر الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا تک انہی کے کردار کو خراج تحسین پیش کیا جاتا رہے گا۔ سو بہترین اننگز کھیلنے پر جنرل (ر) راحیل شریف کا شکریہ اور پاک فوج کی کمان سنبھالنے پر جنرل قمر باجوہ کو مبارکباد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments