جھنگ کا ضمنی انتخاب: قومی سلامتی پر سوال


\"edit\" جھنگ کے ضمنی انتخاب میں سپہ صحابہ کے بانی حق نواز جھنگوی کے بیٹے مسرور نواز جھنگوی کی کامیابی سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں انتہا پسندی ، فرقہ پرستی اور تشدد کے رجحان کو ختم کرنے کےلئے ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ انتہا پسندانہ اور فرقہ پرستانہ خیالات کے حامل شخص کی کامیابی سے قومی ایکشن پلان ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہے۔ قومی ایکشن پلان کے تحت ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کا رویہ اختیار کرنے کے لئے کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ تاہم جھنگ میں صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 78 پر معتدل اور غیر مذہبی امیدواروں کی شکست سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتیں انتہا پسندی اور اس کے نمائندوں کے خلاف مل کر کام کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) سے روایتی سیاسی دشمنی نبھانے کے لئے اس نشست پر امیدوار کھڑا کرنا اور اس کی حمایت میں پرزور مہم چلانا ضرروی سمجھا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اہلسنت و الجماعت کے مولانا محمد احمد لدھیانوی کو تین روز قبل جب ہائی کورٹ نے انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی تو انہوں نے اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اپنے ہم خیال مسرور نواز جھنگوی کے حق میں دستبردار ہونا مناسب سمجھا۔ اس طرح اعتدال پسندوں کے انتشار اور باہمی چپقلش کی وجہ سے ایک ایسا شخص کامیاب ہوا ہے جو بقول بلاول بھٹو زرداری قومی ایکشن پلان کو تباہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

 یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ملک میں سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کو برسر اقتدار آنے کے لئے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے علاوہ ملک و قوم کے وسیع تر مفادات میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ گزشتہ دو برس میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اگرچہ یکساں قوت سے ان عناصر کو ختم کرنے کی بات کرتی رہی ہیں، لیکن یہ بھی مسلسل دیکھنے میں آیا ہے کہ سندھ اور کراچی میں رینجرز کی کارروائی پر پیپلز پارٹی سیخ پا ہوتی ہے اور جب پنجاب میں انتہا پسندی عناصر کے خلاف فوجی کارروائی کی بات کی جاتی ہے تو مسلم لیگ (ن) کسی نہ کسی طرح رکاوٹ بننے کی کوشش کرتی ہے۔ اسی طرح فوج اور وفاق میں حکمران جماعت کے درمیان انتہا پسندی کے خاتمہ اور بھارت و افغانستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اختلافات موجود ہیں۔ فوج کے نمائندے اور سیاستدان چونکہ کھل کر ان امور پر تبادلہ خیال نہیں کرتے، اس لئے مبصرین و تجزیہ کاروں کےلئے میدان کھلا رہتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی صورت میں ملک میں آزادی اظہار کا انوکھا موقع بھی دستیاب ہو چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک کے بیشتر چینلز اور ان پر نشر ہونے والے ٹاک شوز کے علاوہ اخباروں میں چھپنے والے کالم افواہ سازی کے اڈے بن چکے ہیں۔ ہر اینکر، مبصر، تجزیہ کار اور کالم نگار اپنی سیاسی و جذباتی وابستگی کی بنیاد پر ایک خاص طرح کی رائے سامنے لانے اور اسے ثابت کرنے کےلئے ’’مخصوص‘‘ ذرائع سے حاصل شدہ معلومات عام کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ تبصروں اور مبینہ درون خانہ اطلاعات کے اس ہجوم میں ملک کا شہری ہراساں اور بدحواس ہے اور انتہا پسند عناصر مسلسل معاشرے میں افتراق پیدا کرنے اور اپنے لئے جگہ بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

 قومی ایکشن پلان پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے بھی موجود ہے لیکن یہ رائے بھی اتنی ہی شدت سے سامنے آتی ہے کہ قومی ایکشن پلان پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی سرکردگی میں فوج کی طرف سے بھی یہ اعتراض اٹھایا جاتا رہا۔ جنرل راحیل شریف نے منگل کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہوتے ہوئے قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ حکومت بھی اس حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر دعوے کرتی ہے اور اپوزیشن کی تمام جماعتیں بھی قومی ایکشن پلان کا راگ الاپ کر حکومت کو زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ نہیں جانے دیتیں۔ لیکن جو مزاج اور رویہ اس ایکشن پلان پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے، وہی دراصل ملک میں انتہا پسند عناصر کی حوصلہ افزائی کا سبب بنتا ہے۔

 یہ رویہ اصولوں سے بالا ہو کر سیاسی مفادات کے تحفظ کا معاملہ ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنی صفوں سے ان عناصر کو نکالنے پر تیار نہیں جن سے انتخابی مہم کے دوران اعانت یا سیاسی فائدے کی توقع ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ کے انتہا پسند عناصر سے روابط کی خبریں عام ہونے کے باوجود، ان سے جوابدہی کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ اور اسی مزاج کی وجہ سے سندھ اور کراچی میں کارروائی کے دوران کبھی متحدہ قومی موومنٹ چیں بچیں ہوتی ہے اور کبھی پیپلز پارٹی احتجاج کرتی ہے۔ خیبرپختونخوا کی حد تک تحریک انصاف ان عناصر کی اعانت کرنے اور ان سے تعاون مانگنے میں کوئی برائی نہیں سمجھتی جو اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کےلئے انتہا پسندی اور تخریب کاری میں ملوث لوگوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔

ملک کے سیاستدانوں کو اپنی ان کمزوریوں سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ اہم قومی مسائل جن میں دہشت گردی ، مذہبی انتہا پسندی اور بدعنوانی سرفہرست ہیں ۔۔۔۔ کے خلاف کارروائی کےلئے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے، تعاون کی راہ ہموار کریں اور خلوص نیت سے ان جماعتوں کو معاشرے سے ختم کرنے کی حکمت عملی تیار کریں۔ جھنگ میں ضمنی انتخاب کے دوران اس حلقے کی صورتحال سے آگاہ سب لوگوں کو خبر تھی کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے تصادم میں انتہا پسند امیدوار کامیاب ہو سکتا ہے۔ مولانا محمد احمد لدھیانوی ہائی کورٹ سے انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت ملنے سے پہلے مسرور نواز جھنگوی کی حمایت میں مہم چلاتے رہے تھے حالانکہ یہ شخص آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب میں حصہ لے رہا تھا۔ جونہی مولانا لدھیانوی کو اندازہ ہوا کہ ان کے میدان میں آنے کی وجہ سے نہ وہ کامیاب ہوں گے اور ان کے ہم خیال شخص کی جیت بھی مشکل ہو جائے گی تو وہ فوری طور سے انتخاب سے دستبردار ہو گئے۔

اس طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اپنا اپنا جھنڈا اونچا رکھنے کےلئے ایک ایسے شخص کی کامیابی کی راہ ہموار کی جو واضح طور سے انتشار ، نفاق اور فرقہ واریت کا پرچار کرتا ہے۔ مسرور نواز جھنگوی کے والد مولانا حق نواز جھنگوی نے 1985 میں سپاہ صحابہ کے نام سے ایک فرقہ پرست تنظیم بنائی تھی جو ملک میں شیعہ آبادی کے خلاف نفرت پھیلانے کے علاوہ ان پر حملوں میں بھی ملوث تھی۔ اسی کی چھتر چھایا میں ملک اسحاق ، ریاض بسرا اور اکرم لاہوری جیسے دہشت گرد پروان چڑھے تھے۔ جنہوں نے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے متعدد واقعات میں ملوث گروہ لشکری جھنگوی منظم کیا۔ یہی گروہ لشکری جھنگوی العالمی کے نام سے اب داعش کے ساتھ تعاون کر رہا ہے اور بلوچستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں میں ملوث تھا۔ اس پس منظر سے تعلق رکھنے والا ایک شخص اب پنجاب اسمبلی کا رکن منتخب ہوا ہے۔ اگرچہ اس پر دہشت گرد حملوں کے سلسلہ میں کوئی الزام عائد نہیں لیکن مسرور نواز بھی اپنے باپ حق نواز کی طرح ویسے ہی نظریات اور مذہبی عقائد کا پرچار کرتا ہے جس میں دوسرے عقائد کو مسترد کرتے ہوئے ناقابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ اسی مزاج کو ختم کرنے کےلئے قومی ایکشن پلان پر اتفاق رائے کیا گیا تھا لیکن اس مزاج کے حامل لوگ ملک کے نظام میں علی الاعلان انتخاب جیتنے اور حکومت کے منصوبوں کا مذاق اڑانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

بیس نکاتی قومی ایکشن پلان کے بنیادی طور پر چار مقاصد ہیں۔ دہشت گردوں اور انتہا پسند عناصر کے خلاف کارروائی کےلئے ملک کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں میں تعاون پیدا کرنا۔ ملک سے مذہبی منافرت کی فضا ختم کرنے کےلئے اقدام کرنا۔ نفرت پھیلانے والے افراد یا تنظیموں کے خلاف قانونی کارروائی کرنا اور ان کے مالی وسائل کا راستہ روکنا۔ اس کا چوتھا مقصد مدرسوں کی اصلاح ہے۔ مدرسوں کو ایک نظام کے تحت رجسٹر کرنے کے علاوہ وہاں پڑھائے جانے والے نصاب پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے قومی مقاصد سے ہم آہنگ کرنا اس کا حصہ تھا۔ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لئے وفاقی حکومت کے علاوہ صوبائی حکومتوں کو بھی عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن عملی طور پر سیاسی پارٹیاں اور صوبائی و وفاقی حکومتیں ناکامیوں کی ذمہ داری دوسروں پر اور کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کرتی ہیں۔

وفاقی حکومت ملک میں نفرت پھیلانے، فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے والی تنظیموں یا افراد کے خلاف اقدام کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ اور اس حوالے سے دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتی ہے۔ جھنگ کا ضمنی انتخاب واضح کرتا ہے کہ ایک دوسرے کو مطعون کرنے کی بجائے ہر جماعت ، لیڈر حکومت اور ادارے کو اپنے حصے کا کام کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments