شکیل عادل زادہ، بٹھل دادا اور ناسٹلجیا


\"shafique\"ہر نسل کا اپنا اپنا ناسٹلجیا ہے۔

میرے بزرگوں کو عنایت حسین بھٹی اور عالم لوہار کے گیت پسند ہیں ، جب کہ مجھے وہ نہایت بے سرے اور فرسودہ لگتے ہیں۔ میں اپنی نوعمری میں \”اجنبی مجھے تم یاد آتے ہو\” اور \”ہوا ہوا مجھ کو بتا دے، یار کا پتہ دے\” سنتا تھا ، جو آج بھی ویسے ہی میری سماعتوں میں رس گھولتے ہیں۔ ہمارے بچے آج کل یو یو ہنی سنگھ، ارجیت اور عاطف اسلم کو سنتے ہیں ، 20،30 سال بعد بھی یہی ان کی اولین پسند ہو گی۔

مثلاً مجھے اب بھی سب رنگ ڈائجسٹ بہت پسند ہے، اگرچہ اس کی اشاعت بند ہو گئی ہے۔

اس میں ایک سلسلہ وار کہانی \”بازی گر\” کے عنوان سے چھپتی تھی، مجھے اب بھی یہی لگتا ہے میں اس کہانی کا کوئی کردار ہوں۔

شکیل عادل زادہ نے جب ایک ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے \”سب رنگ\” کی اشاعت کے حقوق فروخت کر دیے ہیں اور یہ کہ اب \”بازی گر\” بھی نہیں چھپے گی تو منصب علی تقریباً رو دیا تھا، کہتا تھا اب \”کورا\” کا کیا بنے گا، اسے کون ڈھونڈے گا، بابر زمان خان تو \”رل\” جائے گا اب۔ 6 بار پڑھنے کا باوجود اب بھی اسے سب رنگ کا کسے کباڑیئے سے شمارہ مل جائے تو خرید لیتا ہے۔\"shakeel

نوکیلی، اوپر کو اٹھی ہوئی تلوار مارکہ مونچھیں، عمر یہی کوئی 45 برس، سفید لٹھے میں ملبوس، رات گئے حقے کی نے ہونٹوں میں دبائے، حافظ آبادی تمباکو کی خاص مہک کا مرغولا اڑاتے ہوئے مجھے خضرحیات مانگٹ تو نہیں لگتے، \”بٹھل دادا\” نظر آتے ہیں۔

پنکی کی ماما اب بھی یوٹیوب پہ \”الفا، براوو چارلی\” دیکھتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

دور کیوں جاؤں، اپنے مرشد جواد شیرازی کو نازیہ حسن سے بڑھ کر کوئی گلوکارہ کبھی اچھی ہی نہیں لگی، ان کے بقول وہی ان کی پہلی اور آخری محبت ہیں۔

حسنین جمال بھائی بھلے انکار کر دیں، انہیں پرانی عمارتیں ہی اچھی لگتی ہیں۔

 سکول کے لئے تیار کرتے ہوئے اماں ہمیشہ میرے سر پہ سرسوں کا تیل لگاتیں، درمیان سے مانگ نکالتیں اور \”تبت سنو کریم\” میرے چہرے پر لگاتیں، میں اب بھی کہیں نہ کہیں برفیلے پہاڑ والی تبت سنو کریم ڈھونڈ نکالتا ہوں۔ مجھے اب بھی ڈنٹونک پاؤڈر اچھا لگتا ہے۔\"nostalgia\"

ملک ساجد فرید کے ڈرایئنگ روم میں پڑا 40 سال پرانا ٹیلی فون سیٹ دیکھ کر میں چونک گیا ، کہنے لگا بہت مشکل سے ڈھونڈا ہے۔ مجھے بطور تحفہ وہ جان دینے پہ تو آمادہ تھا، لیکن ٹیلی فون سیٹ کے ذکر پہ مکا دکھاتا ہے۔

 میری شدید خواہش رہی کہ اپنی پنکی کی انگلی پکڑ کر اسے اپنے ماضی کی سیر کرواؤں، گاؤں کے درمیان ماں کی چھاؤں سا برگد کا درخت جا کے دکھلاؤں، پرائمری سکول کے کلاس روم میں ٹاٹ پہ بیٹھ کر الف انار والا قاعدہ پڑھاؤں، ابو کی انگلی تھام کے دیکھا گیا وہ لکی ایرانی کا پہلا پہلا شو اسے دکھاؤں، پیانو کی چھوٹی نیلی کیپ والا بال پوایئنٹ لے دوں،عینک والا جن، شبنم ندیم کی کوئی بھی اردو فیچر فلم دکھاؤں، اور عمران خان کی تصویر والا لیمن کریم بسکٹ لے دوں، لیکن ۔۔۔۔

ہر نسل اور زمانے کا اپنا اپنا ناسٹلجیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments