سانحہ بلدیہ کیس کا فیصلہ اور لواحقین کی امیدیں


سانحہ بلدیہ پاکستان کی تاریغ کا وہ درد ناک دن جب 260 سے زائد ماؤں کی گود اجڑ گئی، جس دن ہر گھر سے جنازہ نکلا۔ کسی نے اپنے لخت جگر کو الوادع کیا تو کہیں بچے یتیم ہو گئے۔ 11 ستمبر 2012 وہ سیاہ دن جس دن سیاسی تنظم کے دباؤ اور بھتہ نہ دینے پر کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں قائم گارمینٹ کی فیکٹری کو آگ لگائی گئی۔ آگ لگانے کے بعد نہ تو کسی کو جان بچانے کا موقع دیا نہ ہی وقت پر کسی نے فائر برگیڈ کو فیکٹری تک پہنچے کی اطلاع دی، جو جہاں تھا وہ وہیں اپنے آخری سانس لے کر اپنی زندگی کو الوادع کرتا رہا۔ یوں کچھ ہی دیر میں فیکٹری میں موجود 260 سے زائد افراد جھلس کے جان بحق ہوگئے یوں تو سانحے میں 260 افراد کی شناخت ہوئی مگر آج تک 20 سے زائد لاشیں ایسی بھی ہے جن کی شناخت نہیں ہوسکی اور ان کو لاوارث لاشیں قرار دے کے ایدھی قبرستان میں دفن کیا گیا ہے۔

سانحہ بلدیہ کیس کا مقدمہ 2012 میں درج کیا گیا جسے پہلے حادثہ قرار دے کے ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ وہ پہلے 4 سال تک کراچی کی مقامی عدالت میں چلتارہا جس کے بعد اس کیس کو انسداد دہشتگردی عدالت کی دفعہ لگا کے انسداد دہشتگردی عدالت ٹرانسفر کیا، کیس میں فیکٹری ملکان، سمیت 768 گوہان کو شامل کیا گیا، یو 8 سال کے طویل عرصے تک کیس چلتا رہا باآخر رواں سال 22 ستمبر کو اس درد ناک سانحے کا فیصلہ انسداد دہشتگردی عدالت نے سنایا، عدالت نے کیس میں نامزد 12 ملزمان سے متعلق فیصلہ دیا۔ انسداد دہشت گردی عدالت نے کیس کے مرکزی ملزم اور اس وقت کے ایم کیو ایم سیکٹر انچارج رحمان بھولا اور فیکٹری میں کام کرنے والے ملازم زبیر چریا کو فیکٹری میں آگ لگانے کے جرم میں 264 مرتبہ سزائے موت دی اور عدالت نے دونوں ملزمان کو فیکٹری کے اندر 260 سے زائد بے گناہ افراد کو زندہ جھلسنے کے جرم میں 264 مرتبہ عمر قید کی سزا بھی سنائی، اور واقعے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو 2, 2 لاکھ دینے کا بھی حکم دیا، جبکہ 60 افراد کو زخمی کرنے جرم میں 10، 10 سال سزا اور جرمانہ بھی عائد کیا، اس کیس کے شریک ملزم فیکٹری کے مینیجر شارخ، فیکٹری کے چوکیدار فضل احمد، ارشد محمود اور علی محمد کو سہولت کاری کے جرم میں 264 مرتبہ عمر قید اور ہر جاں بحق ہونے والے افراد کے اہل خانہ کو 27، 27 لاکھ دیت دینے کا بھی حکم دیا، اس ہی کیس میں انسداد دہشتگردی عدالت نے 4 ملزمان عدم ثبوت کی بنا پر رہا کر دیا جن میں ایم کیو ایم رہنما روف صدیقی، موجود پی ایس پی رہنما ادیب خانم، حسن قادری اور ڈاکٹر عبدالستار کو بری کر دیا۔ انسداد دہشتگردی عدالت نے کیس کے مفرور ملزم ایم کیو ایم رہنما حماد صدیقی اور علی حسن قادرہ کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے حکم دیا دونوں ملزمان کو زندہ یہ مردہ حالت میں گرفتار کیا جائے،

8 سال کے انتظار کے بعد کیس کا فیصلہ تو آ گیا مگر عدالتی فیصلے کو لے کر سانحے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحیقن مطمئن نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سانحے میں ہمارے پیارے ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئے یہ غم ہمیں مرتے دم تک رہے گا ہمیں عدالت سے انصاف کی امید تھی مگر عدالت نے بڑے بڑے اور اہم لوگوں کو بری کر دیا ہم اپنے پیاروں کا انصاف چاہتے ہیں، جبکہ کراچی کے قانون دان طبقے میں بھی فیصلے کو لیکر کہیں سوال ہے، کہتے ہے جو کیس لمبا چلتا ہے اس میں تحقیقات صحیح نہیں ہوتی عدالت کے سامنے جو ثبوت پیش کیے گئے عدالت نے اس کی بنیاد پر فیصلہ سنایا ہے،


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).