کوئی غمگسار ہوتا


یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہو تا کوئی غمگسار ہو تا

دو صدیاں پیشتر کہا گیا غالب کا یہ شعر اکیسویں صدی میں بھی اتنا ہی متعلقہ نظر آتا ہے۔ آج کا انسان سائنسی و سماجی میدان میں ترقی کر نے کے باوجود اپنے ہی جیسے انسانوں کو سمجھنے میں کامیاب نہیں رہا، مزید براں انسان بذات خود ایک ایسا گنجلک جاندار ہے جس کا ردعمل ہر مقام اور حالت میں مختلف ہو تا ہے۔ عام مشاہدے میں آیا ہے کہ عموماً ہم چند ملاقاتوں میں ہی کسی شخص کے بارے میں ایک مخصوص رائے قائم کر لیتے ہیں۔ یہ رائے مثبت بھی ہو سکتی ہے اور منفی بھی اور ہم اسی رائے کے عدسے سے اس شخص کے افعال و اقوال کو جانچتے ہیں۔ مزید براں ہمارے مشورے و نصائح بھی اسی قائم شدہ رائے اور اپنے تجربات کی روشنی میں ہوتے ہیں جو ہر کسی کے لئے ویسے کارآمد و متعلقہ نہیں ہو سکتے جیسے کہ ہم گماں کرتے ہیں۔

جب بھی کوئی شخص کسی مشکل صورتحال جیسے کہ عزیز کی موت، روزگار کا خاتمہ، ناکامی، خوف، نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے تو اسے عموماً دو رائے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اولاً، یہ صورتحال کسی خطا یا غلطی کی وجہ سے زندگی میں آئی یا پھر اس شخص کی تقدیر میں وہ لکھا گیا تھا۔ یہ دونوں باتیں اپنی جگہ لیکن ایسے کسی کو جانچتے ہو ئے ہم ایک بنیادی بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ انسان ایک جذباتی جاندار ہے۔ انسان کی زندگی میں جذبات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

انسان اپنے مشکل حالات میں صرف مشوروں و نصائح کو طلب گا ر ہی نہیں ہو تا بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ دوسرے اس کے دکھ کو سمجھ سکیں کہ وہ کن حالات میں سے گزر رہا ہے اور اس پر کیا بیت رہی ہے۔ انسان کے لئے اپنے مشکل حالات میں غمگساری empathyبہت اہمیت رکھتی ہے جس کی توقع وہ ہم زادوں سے رکھتا ہے۔ فی زمانہ موٹیویشنل سپیکرز کا رحجان ہے اور معاشرے میں ایک کثیر تعداد ان کو سنتی ہے۔ بظاہر ان کے خطابات و اقوال میں حوصلہ افزائی کی تصویر تو نظر آتی ہے لیکن غمگساری empathyکی کمی نظر آتی ہے۔

اس کے علاوہ معاشرے میں ظلم و زیادتی کا شکار ہونے والے لوگوں کے لئے انصاف کی آواز بلند کرتے ہوئے ہم ان کے ساتھ غمگساری کا رویہ اختیار کرنا بھول جاتے ہیں۔ زیادتی کا شکار ہونے والا ایک نفسیاتی صدمے سے بھی گزرتا ہے جس کا مداوا بھی ضروری ہے۔ ان دنوں موٹروے پر ہو نے والے زیادتی کیس خبروں کی شہ سرخی ہے، اور اس طر ح کے کیس بھی روزمرہ کی خبروں میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ معاشرے کو صرف متاثرہ افراد کے لئے انصاف اور ظالموں کے لئے سخت سزاؤں کو ہی یقینی نہیں بنانا بلکہ ان متاثرہ افراد کی بحالی کے لئے بھی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون، نفسیاتی طور پر بہت دکھ اٹھاتی ہے جس میں سب سے پہلے، تفتیشی اور عدالتی نظام جو متاثرہ فرد کے لئے اذیت کا ساماں پیدا کر تا ہے، دوسرا ہمارا معاشرہ جو بعض اوقات خاتون کو ہی اس کا الزام دیتا ہے جیسے کہ موٹروے کیس میں اعلیٰ پولیس افسر کا بیان۔ جرم و سزا کو مسئلہ صدیوں سے چلتا آیا ہے اور یقیناً جرم آئندہ بھی متوقع ہے۔ سزا دینے سے جرم نہ پہلے ختم ہو ئے تھے نہ اب ہی ختم ہو پائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وطن عزیز میں بہتر تفتیشی اور عدالتی نظام کو فروغ دیا جائے جو متاثرہ افراد کے لئے ریلیف مہیا کر سکے۔ بطور معاشرہ رویوں اور خیالات میں تبدیلی ضروری ہے جو کہ اس طرح کے واقعات میں متاثرہ خواتین کو حوصلہ دے اور ان کے لئے جسمانی و نفسیاتی بحالی کو ممکن کر سکے۔

یاد رہے کہ کسی کے دکھ میں کسی کا ساتھ دینے کے لئے شاید نصائح یا سبق آموز کہانیاں اتنی کارآمد نہیں ہوتیں جتنا کہ اس شخص کے ساتھ غمگساری و ہمدردی کا رویہ جو اسے یہ بتا سکے کہ اس کا دکھ واقعی ہی ایک تکلیف دہ حالت ہے اور اس دکھ کی حالت میں آپ اس کے ساتھ ہیں۔

اسی لئے غالب نے سچ ہی کہا تھا،
کوئی چارہ ساز ہو تا
کوئی غمگسار ہو تا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).