سیاسی آلودگی کیسے دور ہو؟


یہ تو نوشتہ دیوار تھا کہ 20 ستمبر کی اے پی سی کو ماضی قریب میں ہویے اس طرح کے اجلاسوں سے ہر حال میں مختلف اور موثر ہونا تھا مگر مقتدر حلقوں کا خیال تھا کہ بات نشستن ’گفتن‘ برخاستن تک محدود رہے گی انہوں نے اے پی سی کے متعلق اپنے پتے اس وقت کھیلے جب چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں عمران حکومت نے البتہ میاں نواز شریف کی تقریر ذرائع ابلاغ پر نشر کرنے کا بروقت فیصلہ کیا حکومت کو جب ایجنسی نے تقریر کے متن کے بارے اجلاس شروع ہونے سے پہلے 19 ستمبر کی شب آگاہ کر دیا مگر حکومت اور اس ایجنسی نے عسکری ادارے کو اس اطلاع سے بے خبر رکھ کر بالواسطہ طور پر اور عملاً خود کو اے پی سی کے ان نکات کا حصہ بنا لیا ہے جن میں سے ریاست سے بالا ریاست اور سیاست میں مداخلت کے خلاف واضح دو ٹوک اور پختہ موقف کا اظہار کیا گیا ہے میرے خیال میں اگر عسکری ادارے کو اجلاس کے رجحان کا ایک روز پہلے علم ہوتا تو وہ آرمی چیف کے ساتھ پارلیمانی رہنماؤں کی ملاقات کی اطلاع اے پی سی کے اجلاس سے قبل ہی منظر عام پر لے آتے کیونکہ مذکورہ ملاقات کی خبر جس لہجے اور انداز سے عوام کو دی گئی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس اطلاع کو عام کرنے کا مقصد ملاقات میں زیر بحث آنے والے موضوع سے عوام کو آگاہ کرنا نہیں بلکہ برعکس کے یہ تاثر مضبوط کرنا تھا کہ عسکری قیادت پر سیاسی مداخلت کا الزام لگانے والے خود بھی عسکری ادارے کی قیادت سے ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں تاہم دوا نے الٹا اثر دکھایا کیونکہ یہ عجلت آمیز اقدام تھا جس کے بطن سے سوال ابھرا کہ مذکورہ اجلاس اگر گلگت بلتستان میں انتخابات اور اسے صوبے کا درجہ دینے سے متعلق مشاورت کے لئے ہوا تھا تو کیا یہ مشاورتی ایجنڈا دفاعی نوعیت رکھتا تھا یا اس کی غرض غایت مقصد اور نتائج ہر پہلو سے سیاسی فیصلہ سازی کے زمرے میں آتے تھے؟ اجلاس کی میزبانی عسکری ادارے کی بجائے وزیراعظم کو کرنی چاہیے تھی کیونکہ مذکورہ اجلاس تو سیاست میں طاقت کے سرایت شدہ متنازعہ کردار پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے مترادف ثابت ہوا ہے اس پر طرہ یہ کہ اے پی سی کے اعلامیہ کے بعد سیاسی زعما کو تنبہہ انداز میں ’ ”فوج کو سیاست میں ملوث کرنے سے گریز۔“ ”کا مشورہ دینا قطعاً بے معنی بات ہے جس کا کہیں کوئی مفید اثر نہیں ہوا حکومتی وزرا نے اس تنبہہ کے برعکس عسکری ادارے اور حکومت کو مماثل قرار دینے کا غیر آئینی اقرار کرتے ہوئے“ اسے سیاست کا اہم کھلاڑی بنانے سے گریز نہیں کیا ”ماضی کی کسی جماعت نے اقتدار میں رہتے ہوئے اس طرح کی عامیانہ حرکت نہیں کی تھی وزیراعظم عمران کا یہ دعویٰ اس پر مستزاد ہے کہ ان کی حکومت اور عسکری ادارے کے درمیان جو ہم آہنگی اور تعاون موجود ہے ماضی کی کسی حکومت کو میسر نہیں رہا۔۔۔ یہ بات حکومت کی مضبوط بنیاد نمایاں کرنے کے لئے کہی گئی مگر بین السطور میں یہ نقطہ اے پی سی اعلامیہ اور نواز شریف کی تقریر کے موقف کی تائید کرتا ہے شیخ رشید کی پھرتیاں ناقابل تحریر اور ناقابل توضیح ہیں کیونکہ وہ بھی عسکری ادارے کے سیاسی کردار کی شہادت دیتے ہیں“ نادان دوست سے دانا دشمن بھلا ہوتا ہے ”یہ محاورہ اب بخوبی سمجھ آ رہا ہے۔

حکومت نے یہ جاننے کے بعد نواز شریف کی تقریر نشر ہونے دی کہ اس میں حکومت کی بجائے عسکری قیادت پر تنقید کی جائے گی تو اپوزیشن اور عسکری قیادت میں پہلے سے موجود خلیج مزید گہری ہوجایے گی جس کا سارا فائدہ عمران حکومت کو حاصل ہو گا

حکومتی جماعت نے اس طرز عمل سے اپنے اقتدار کو ترجیح دے کر ایسی کھائی تیار کی ہے جس میں جلد اسے گرنا پڑے گا اس فیصلہ کے مابعد اثرات حکومت اور فوج کے درمیان تعاون منہدم کریں گے جب عسکری قیادت کو اندازہ ہوگا کہ ان کے لاڈلے نے شعوری طور پر انہیں قومی سیاسی محاذ میں ہدف تنقید بنانے کے لیے معاونت کی ہے۔

بات بہت واضح اور دو ٹوک ہے ایک بھی ایسا پاکستانی نہیں ہو گا جو عسکری ادارے کے پیشہ ورنہ کردار کا مخالف ہو مجھ سمیت ہر پاکستانی ملک کو ”سلطنت“ کی بجائے آئینی جمہوری پارلیمانی ریاست کے انداز و طریق پر چلانے کے متمنی ہے اور اس خواب کی تعمیر و تعبیر میں جسے 23 مارچ 1940ء کو راوی کے کنارے جاگتی آنکھوں سیاسی عمائدین نے دیکھا تھا جو کوئی بھی حائل ہو یا ہو گا یا ایسی کوشش کرے گا وہ پاکستان کے بنیادی تصور و خواب کی حقیقی تعبیر کا مخالف گردانا جائے گا اب جو بھی اس الزام سے بچنا چاہے اسے ملکی آئینی بندوبست پارلیمان اور جمہوریت کا احترام کرنا ہے یہ سیاسی مطالبہ نہ تو ملک دشمنی پر مبنی ہے نہ ہی کسی بھی ریاستی محکمے کے وقار کے منافی۔

پی ڈی ایم کے قیام کے بعد ذرائع ابلاغ میں حکومت کے کردار یا سوچ کی وضاحت ان الفاظ میں ہو رہی ہے ”یہ ملک اور اپوزیشن (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) ”اب اکٹھے نہیں چل سکتے۔ نواز شریف نے ملکی اداروں پر جس طرح تنقید کی ہے اس کے بعد واضح ہوگیا ہے کہ اب ہمارا ( عمران خان کا) کوئی متبادل نہیں ہمارے حریف آؤٹ ہو چکے ہیں”

قبل ازیں بھی عمران خان کہہ چکے ہیں کہ ان کا تو کوئی متبادل ہی نہیں۔ اس بیان میں فیصلہ کن اختیار کا اشارہ کس جانب ہے؟ عوام کے پاس تو ہمیشہ متبادل موجود ہوتے ہیں پھر وہ کون ہے جس کے بارے کہا جا رہا تھا کہ ہمارے علاوہ اس کے پاس کوئی متبادل دستیاب ہی نہیں! اس موقف سے جہاں عسکری قیادت کے متعلق سوالات اٹھتے ہیں وہیں یہ تاثر بھی پختہ ہوتا ہے کہ حکومتی جماعت جمہوری ہے نہ جمہوری بنیاد کی حامل۔ وہ تو کسی کے لئے lesser evil ہے۔ متبادل نہ ہونے کا حوالہ عسکری قیادت کی سیاسی بالادستی کو قبول کرتے چلے رہنے کا عندیہ بھی تو ہو سکتا۔ کیا یہ بات آئینی پارلیمانی سیاسی روایات سے کو نسبتی رشتہ یا وابستگی ظاہر کرتی ہے؟ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اس پر غور کرنا چاہیے اگر وہ واقعتاً سیاسی بصیرت رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں!

ایک اور صحافتی دلیل یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ” 2012 ءتک کسی نے ان (عمران خان ) کو قومی لیڈر اور 2018 ءتک وزیراعظم بنانے کا نہیں سوچاتھا“ عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے لئے آپشن بنائے ہیں واجہ آصف زرداری اور واجہ نواز شریف نے اہم کردارادا کیا ہے۔ اگر وہ مقتدر حلقوں کو صحیح انداز میں ڈیل کرتے تو عمران خان کبھی بھی وزارت عظمیٰ کے لئے آپشن نہ بنتے (سلیم صافی 23۔ 09۔ 20 )

کیا برادر سلیم صافی کی دلیل واجہ نواز شریف کی تقریر کے برعکس کا منظرنامہ پیش کرتی ہے؟ مقتدر حلقوں کے ساتھ صحیح انداز میں ڈیل کا مطلب و معیار کیا ہونا چاہیے اس کی وضاحت برادر عزیز سلیم صافی ہی کر سکتے ہیں؟ تاہم واجہ نواز شریف کی تینوں بار اقتدار سے رخصتی کی وجوہات کاراز آشکار ہو رہا ہے کہ موصوف نے مقتدر حلقے کو کیسے اور کس آئینی بنیاد پر ناراض کیا؟ کیاوہ دفاعی پالیسی کے خدوخال میں تبدیلی چاہتے تھے جس پر طاقتور حلقے ناراض ہوئے؟ اگر وزیراعظم ایسا بھی چاھتے تھے تو یہ ان کا قانونی استحقاق تھا کہ وہ جو پالیسی مرتب کریں تمام ملکی محکمے اسے من و عن تسلیم کریں، عمل کریں۔ منتحب حکومت یا نواز شریف مملکت پاکستان کو مضبوط مستحکم اور خطرات سے آزاد و محفوظ رکھتے ہوئے اگر اس عظیم مقصد کے لئے نیشنل سیکورٹی اور دفاع کے خدوخال میں تبدیلی کی ضرورت پر اعتماد رکھتے تھے تو اس میں برائی کیا تھی؟ پرامن تنازعات سے پاک خطہ اور ہمسائیگی ۔۔۔ آبرومندانہ سطح پر ایک مناسب پالیسی ہو سکتی ہے، اسے بروے کار لانے سے پاکستان میں سماجی معاشی شعبے میں ترقی واستحکام ملک کے دفاع کو ناگزیر طور پر محفوظ بنتا ہے۔ اگر عسکری حلقوں کو اس پالیسی پر خفگی تھی تو یہ مزید ناقابل قبول بات ہوگی۔ وجہ نزاع اس کے علاوہ کوٰئی بات تھی اسے سامنے لانا ضروری ہے۔

2018  کے تجرباتی بندوبست کے بارے میں برادر سلیم صافی کہتے ہیں، ”حکومت ناتجربہ کار اورمسخروں کا مجموعہ ’جبکہ اپوزیشن بزدلوں اور مصلحت پسندوں کا ٹولہ۔ یہی وجہ ہے کہ دوسال میں پاکستان کا وہ حشر ہوگیا ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔“

اقتباس  بالا میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ”دوسال میں ملک کا حشر برا ہو گیا ہے“ گویا یہ مسلمہ ہے کہ اس حکومت سے قبل ملک بہتر صورتحال میں تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ اگر اپوزیشن کو بزدل اور مصلحت پسند قرار دے رہے ہیں تو سیاسی تجزیہ کار سے سوال ہوگا کہ صحافی اور ذرائع ابلاغ اپوزیشن جماعتوں سے کس قسم کے بہادرانہ اور غیر مصلحت پسند رویے کی توقع کرتے ہیں؟ کیا اے پی سی کے اعلامیہ اور واجہ نواز شریف کے تاریخی ریکارڈ پر مبنی موقف نے مصلحت کوشی کی ساری کشتیاں جلا نہیں دیں؟ پھر ذرائع ابلاغ اس اے پی سی کے مطالبات اور تقریروں کو ہدفٍ تنقید کیوں بنارہے ہیں؟ کیا وہ آگے بڑھنے کے خواہش کے ساتھ مفاہمت زدہ انحطاط پسندی کے بھی متمنی ہیں؟ اے پی سی اجلاس میں واجہ نواز شریف کی تقریر کے دوران مجھے قائد جمہوریت میر حاصل خان بزنجو رہ رہ کر یاد آئے۔ سینیٹ کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد ان کی تقریر ہم سب کو یاد ہے۔ اگر اے پی سی کے اجلاس تک زندگی میر حاصل کے ساتھ وفا کرتی تو واجہ نواز شریف کی تقریر سے زیادہ زور دار شفاب اور دلیرانہ موقف میر حاصل بزنجو پیش کرتے۔

میر حاصل خان بزنجو کی تقریر کے بعد غیر مبہم طور پر انہیں پیام مل گیا تھا کہ آنے والے انتخابات میں ان کی جماعت کو ایک نشست بھی نہیں ملے گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔ یہ نقطہ واجہ نواز شریف اور اے پی سی کی آگہی کے لیے عرض کیا کیونکہ پی ڈی ایم کے 26 نکاتی مطالبات اور بیانیے کے بعد اگر پی ڈی ایم نے اپنی تنظیم اور ساخت سے صرف نظر کیا تو اسے بہت نقصان ہو سکتا ہے۔ درست جاندار اور غیرمصلحت پسند موقف اختیار کرنے کے بعد تمام جماعتوں کو اپنی صفوں میں اس موقف سے مربوط تنظیم مضبوط کرنی ہوگی موسمی پرندے ہوا کے رخ پر پرواز کریں گے لہٰذا سب اراکین اسمبلی سے استعفیٰ بھی حاصل کرلئے جائیں۔

اپوزیشن اتحاد نے اپنے مقاصد اور طریقہ کار کے اہم نکات عوام کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ اختیار واقتدار والے اس کے مقابل کیا کیا تدابیر اپنائیں گے یہ سب مخفی ہے لیکن دیوار کے عقب سے کیا کچھ برامد ہو سکتا ہے اسے ہر صاحب بصیرت جانتا ہے۔ تاریخی روایت کے تناظر میں سیاسی مخالفین میں بزور طاقت نقب زنی کے خدشات موجود ہیں بلکہ ان پر عمل شروع ہوچکا ہے وہی روایتی راگ الاپ کر اے پی سی کو بھارت کا ایجنٹ قرار دے کر موقع پرست افراد کو حکومت کے سایہ عافیت میں پناہ دی جائے گی۔ حکومت نے قومی سیاسی محاذ کو بھارت کا ایجنٹ قرار دے کر سیاست میں دہائیوں فرسودہ حربہ آزمانے کا آغاز کرکے اپنی جمہوری ساکھ کی ہنڈیاپھوڑدی ہے۔

واجہ میاں نواز شریف اپنی سیاسی وراثت بیٹی کو منتقل کر رہے ہیں یہ سیاسی وراثت مزاحمتی سیاست کے ذریعے محفوظ رہے گی تو منتقل ہوگی۔ یہی بات واجہ بلاول بھٹو زرداری کے متعلق کہی جا سکتی ہے سیاست میں غیر سیاسی مداخلت نے اسے اتنا آلودہ کر دیا ہے کہ مزاحمت کے بغیر اسے صاف بنانا ناممکن ہوچکا ہے۔ قومی سیاسی اتحاد کا یہی مقصد قبول ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).