فوجی عہد بمقابلہ سیاسی عہد


پاکستان کی سیاست میں جنرل ایوب خان کے دور حکمرانی کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ جب کبھی سیاسی دور حکومت اور فوجی عہد کا موازنہ کیا جاتا ہے تو یہ فوجی عہد جنرل ایوب خان کا ہوتا ہے۔ ایوب خان کے عہد حکمرانی کے دس سال پورے ہونے پر ایک جشن منایا گیا جو کم وبیش ایک سال تک جاری رہا۔ سرکاری دفاتر، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور ابلاغ کے دیگر ذرائع سے ایک ہی نعرہ
The Great Decade Of Development and Reform
زبان زد عام رہا۔

ایک سال تک ایوبی عہد کے کارنامے عوام کو سنائے گئے۔ فیلڈ مارشل کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایک جنگ شروع ہو گئی۔ ایک سے بڑھ کے ایک قصیدہ خواں نے اپنے جوہر دکھائے۔ اخبارات نے جنرل ایوب کے دس سالہ دور حکومت کو مافوق الفطرت ثابت کرنے کے لیے خصوصی ایڈیشن شائع کیے۔ اس عہد زریں کے فضائل بیان کرنے کے لیے وہ شور اٹھا کہ الامان، کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ بالکل ویسے ہی جیسے دو سال قبل نئے پاکستان کے نعرے کے شور نے عوام کو کانوں پر ہاتھ رکھنے پر مجبور کر دیا۔ جس طرح موجودہ عہد میں نئے پاکستان کے فضائل، عام آدمی کو سمجھ نہیں آرہے، بالکل اسی طرح اس دور میں بھی عوام کی حیرانی دیدنی تھی۔

حالات کی بد قسمتی دیکھیے، جنرل ایوب کے قصیدہ خواں، جب عوام کو گزشتہ دس سال میں ہونے والی ترقی کے متعلق بتانے اور سمجھانے میں مصروف تھے، اس وقت ہی روزمرہ کی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ دال، چاول، آٹا اور چینی سمیت دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کو مشکلات سے دو چار کر دیا۔ بات صرف مہنگائی پر نہیں رکی بلکہ ان بنیادی ضروریات کی قلت بھی شروع ہو گئی۔ آٹا اور میدے کی قیمتوں میں اضافے پر کراچی میں بیکری والوں نے بطور احتجاج، ایک دن کی ہڑتال کر دی۔ اسی طرح چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ اور قلت کے سبب، کراچی اور لاہور میں راشن بندی کر دی گئی۔ راشن بندی کے اس فیصلے پر مرکزی وزیر تجارت نواب عبدالغفور خان ہوتی پر بہت سی الزام تراشیاں ہوئیں اور عوام نے ان کو چینی چور کا لقب دے دیا۔

قارئین نئے پاکستان کے حالات کا موازنہ ایوبی عہد سے کریں اور سوچیں کہ کیا فرق ہے۔ کم و بیش وہی حالات، عوام کو آج بھی درپیش ہیں، جو کہ جنرل ایوب کے دور میں درپیش تھے۔ اس دور میں بھی چینی چور حکومتی اہم وزیر تھا۔ اس بار بھی عوام کی نظروں میں چینی چور اہم حکومتی عہدوں پر فائز ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود ایوبی عہد اور نئے پاکستان میں چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ، ان ادوار میں ہونے والی کسی بھی ترقی کی نفی کرنے کا جواز رکھتی ہیں۔ جنرل ایوب کے دس سالہ دور حکمرانی اور کپتان کے دور حکمرانی میں ایک فرق بہرحال موجود ہے اور وہ یہ کہ عوامی مقبولیت کا جو گراف ایوب خان نے دس سالہ حکمرانی کے بعد کھویا تھا، وہ موجودہ حکومت نے محض دو سال میں کھو دیا ہے۔

حکمران اشرافیہ ان کے سرپرستوں اور خیر خواہوں کو گزشتہ ستر سالوں سے یہ بات کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ عوام کا مسئلہ آئینی پیچیدگیاں نہیں بلکہ روزگار کا حصول اور بنیادی ضروریات زندگی کی ارزاں نرخوں پر فراہمی ہے (آئینی پیچیدگیاں دور ہوں گئی تو ہی شہریوں کے حقوق کا تحفظ ممکن ہے۔ مدیر) ۔ پشاور بی آر ٹی ہو یا لاہور کی میٹرو، ان سے کسی غریب کا پیٹ نہیں بھرنے والا اور نا ہی بے روزگار کو روزگار فراہم ہونے والا ہے۔ ملکی ترقی کے لیے یہ منصوبے بھی ضروری ہوں گے، مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ عام آدمی کو امن و امان، روزگار، صحت اور تعلیم کی سہولیات سے غرض ہے۔ دوائیوں کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے سے حکومت نے کس کے دل جیتنے کی کوشش کی ہے، اس پر ارباب اختیار کو سوچنا ہو گا۔

مستقبل میں جب بھی موجودہ حکومت کی کارکردگی پر لکھا جائے گا تو یہ بات بھی ضرور لکھی جائے گی کہ یہ شاید اپنی نوعیت کی واحد حکومت تھی، جس نے پٹرول کی قیمت کم کر کے بھی عوام کی بد دعائیں لیں اور پٹرول کی قیمت بڑھا کر بھی بد دعائیں لیں۔ اس سے زیادہ بہتر کارکردگی اور کیا ہو گی کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود 55 روپے والی چینی 110 میں فروخت ہونے لگی اور گندم کے خود کفیل ملک کو بالآخر گندم باہر سے منگوانی پڑی۔ روزگار کے انتخابی وعدے پر بنی گالہ سے وزیر اعظم ہاؤس پہنچنے والے کپتان نے بے روزگاری کو عوام کا مقدر بنا دیا۔ پچاس لاکھ گھروں کے وعدے کے بر عکس سروں پر موجود سائبان چھن جانے کا ڈر پیدا ہو گیا ہے۔ آفرین ہے ایک جوش و جذبے کے ساتھ حکمرانی بھی جاری ہے اور قصیدہ خوانوں کا کامیابی کا شور بھی جاری ہے۔

شاۂ ایران نے ایک بار انٹرویو میں کہا تھا کہ میرے ارد گرد موجود حواریوں نے مجھے کبھی اپنی عوام کے حقیقی حالات نہیں بتائے، ہر بار مجھے یہی بتایا گیا کہ ملک میں امن سکون اور عوام خوشحال ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں اپنی عوام سے دور ہوتا گیا۔ ان کے مسائل سے بے خبر رہا۔ بالآخر جب مجھے حالات کا علم ہوا تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی اور میں اپنی عوام کو کھو چکا تھا۔ یہ الفاظ کسی عام شخص کے نہیں بلکہ اس شاۂ ایران کے ہیں جو عوام کے دلوں پر راج کرتا تھا۔

مگر جب عوام نے ساتھ چھوڑا تو نا تخت کام آیا اور نا ہی تاج۔ بس یہی سادہ سی بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک عوام خوشحال ہیں، تو ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ تخت نشین کون ہے اور جب عوام تنگ دستی کا شکار ہوتے ہیں، تو بھی اس کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اب تخت نشین کون ہے، اور وہ بڑی بے رحمی کے ساتھ تخت اور تاج چھین لیتے ہیں۔

نئے پاکستان کے بادشاہو، اگر تخت اور تاج سلامت رکھنے ہیں، تو عوام کی خبر لو۔ عوام کی نئے پاکستان کے بیانیے سے وابستگی آئے روز کم ہو رہی ہے۔ اگر بالکل ہی ختم ہو گئی تو پھر کیا ہو گا؟ ابھی وقت ہے سنبھل جائیں۔ آپ بھلے طاقتور ہوں مگر ابدی حقیقت یہی ہے کہ طاقت کا سرچشمہ کچھ اور نہیں صرف اور صرف عوام ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).