خود ساختہ ترجمانوں کے نام


ریاست کے چار ستونوں میں سے ایک میں بھی دارڑ پڑ جائے تو پوری عمارت خطرے میں آجاتی ہے۔ بنیادی طور پر چار ستونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ چلنے، اعتماد سازی اور مملکت کی بہتری کے لئے ایک صفحے پر اکٹھا ہونے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے۔ تاہم گزشتہ کئی دنوں سے غیر تعمیری بحث مباحثوں اور ’انکشافات‘ کی نئی روش کا آغاز ہوا۔ باہمی اختلافات سے نقصان وطن عزیز اورپچانویں فیصد کمزور طبقے کو ہی ہوتاہے۔ بعض عناصر کی جانب سے سلامتی امور پر ان کیمرہ بریفنگ کا اخفا اور بے معنی نظریہ کو فروغ دینا اخلاقی اقدار کی انحطاط پذیری کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔

عالمی ذرائع ابلاغ اور ملک دشمن عناصر کے ہاتھ میں ڈگڈگی آ گئی ہے، جسے بجا بجا کرناچ رہے ہیں، ہم بخوبی جانتے ہیں کہ مسلح افواج ہر سیاسی بیان پر ردعمل نہیں دے دیتی، اگر آئی ایس پی آر ہر سیاست دان کے بیانات پر ردعمل دینا شروع کر دے، تو اس سے واضح ریاستی تقسیم کا تاثر ابھرے گا۔ ناقدین ریاستی اداروں پر انگلیاں اٹھاتے لیکن جب تک کوئی مسند اختیار و اقتدار پر ہو، اس پر سخت ردعمل دینے سے گریز کرتے ہیں، یہ وتیرہ بن چکاکہ جب بھی کوئی صاحب اختیار یا اقتدار اپنے منصب سے رخصت ہوتا تو الزامات کا پنڈورا بکس کھل جاتا ہے۔ جوابا الیکٹرونک و ڈیجیٹل میڈیا میں قیاس آرائیوں پر مبنی مباحثے عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔ جس کا حاصل کبھی مثبت نہیں رہا۔

سب اہم کردار میڈیا کا ہے۔ سیلف سنسر شپ پالیسی کے باوجود کسی بھی سیاسی شخصیت کو صرف اس وجہ سے اہمیت دینا کہ اس کے شگوفوں اور تکے لگانے سے ریٹنگ بڑھے، تو اسے صحافتی اقدار کے منافی مانا جاتا ہے ، صحافت مقدس ترین خدمت ہے، اسے محض اس لئے پراگندہ کرنا، کہ کسی سیاسی شخصیت کو دیکھا اور سنا، اس لئے زیادہ جا رہا ہے کہ وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سنسنی پیدا کرکے گفتگو کے کئی پیرائے بڑے عامیانہ انداز میں بیا ن کرتا ہے۔ کسی سیاسی جماعت کے رہنما یا قائد کے لئے ذومعنی غیر اخلاقی لفظوں کا انتخاب، کھلے ڈھکے لفظوں میں ریاستی اداروں و غیر جانب دار محکموں کا خود ساختہ ترجمان بن کر ’نادان دوست ”کا کردار ادا کر رہا ہے۔

عجیب وتیرہ بن چکا ہے کہ حکومتی ترجمانوں کی بڑی معقول تعداد موجود ہے۔ وزرا، مشیر، معاون خصوصی وغیرہ اس کے علاوہ ہیں، عوام ان کی وزارت کے بابت جاننا چاہتی ہے کہ کیا کھویا کیا پایا، سمجھ ہی نہیں پاتے کہ دفاعی امور کا وزیر، مواصلات کے محکمے میں زیادہ مصروف ہے یا وزیر مواصلات دفاعی وزرات میں۔ اسی طرح خارجہ امور میں ریلوے کا انجن فیل ہوجاتا ہے اور تمام حدود و قیود توڑتا رہتا ہے، جب بات سلامتی امور کی جائے تو خودنمائی کا جو عالم ہے اس سے کوئی ناواقف نہیں۔

الیکٹرونک میڈیا کو اپنی ایک ایس او پیز بنانے کی ضرورت ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ وزیر تعلیم سے صحت کے امور پر مباحثہ تو بلدیات کے موضوع پر وزیر صحت جواب دے رہے ہوتے ہیں، قریبا تمام وفاقی و صوبائی وزراتوں کا یہی حال ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے ہر شعبے و محکمے کے مشیر و ترجمان بھی مقرر کیے گئے ہیں، لیکن الیکٹرونک میڈیا کی ترجیحات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک ریلوے کی وزیر سے اس کی وزرات میں کھربوں روپے کے نقصان کے بجائے غیر متعلقہ سوالات پوچھے جاتے ہیں۔

ریاست کے اہم ستون صحافت کے زبوں حالی و ترجیحات کے حوالے سے انہیں اخبارات کی ترتیب و نظام و انصرام سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اگر کوئی بھی سیاسی شخصیت یا جماعت اپنے مخالفین کے خلاف غیر اخلاقی و عامیانہ گفتگو کا استعمال کرتی ہے تو یہ ان فرائض میں ہے کہ ناظرین کو ایسے لب و لہجے اور طرز بیان سے محفوظ رکھیں۔ معاشرتی گراؤٹ کی روک تھام کے لئے ذرائع ابلاغ کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ دوم پیمرا کو ایسے بیانات و قیاس آرائیوں کا نوٹس لینا چاہیے جس میں ریاستی اداروں و پارلیمنٹ کی تضحیک ہو رہی ہو اور ایسی گفتگو جس سے معاشرے میں انتشار و افراتفری پھیلتی ہوں، نشر کرنے میں احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

قانون نافذ کرنے والے و حساس ادارے ملکی سلامتی و عوام کی بقا کی ضامن ہیں، ان کی ذمے داریاں سب سے زیادہ ہیں کیونکہ انہیں داخلی و خارجی محاذ کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کی نظریاتی و سرحدی حدود کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ ملک دشمن عناصر، ممالک اور صوبائیت، قوم پرستی، لسانیت، فرقہ واریت کے ناموں پر قوم واحدہ کو گروہ در گروہ کرنے والوں کا مقابلہ بھی کرنا ہوتا ہے۔ دنیا کی جدید ترین افواج میں اپنی مسلم حیثیت کو بھی قد آور رکھنا قومی سلامتی کے اداروں کے فرائض منصبی میں شامل ہیں، انہیں خصوصی طور پر ایسے نادان دوستوں کو شٹ اپ کال ضرور دینی چاہیے جو اپنی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے مسلح افواج کا مورال گرا رہے ہیں۔ جس قسم کے حالات کا سامنا اس وقت ملک و قوم کو ہے اس صورتحال میں عدلیہ کا کردار بھی ماضی کے مقابلے میں انتہائی ذمے دارنہ ہوچکا ہے۔ عدالتی اصلاحات کو نچلی سطح تک عملی طور پر نافذ کرنا اور تفتیش کرنے والوں اداروں کے لئے ایک مربوط ؒلائحہ عمل کی فراہمی سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔

ریاست کا سب اہم ستون پارلیمنٹ ہے، جہاں قانون سازی و عوامی فلاح بہبود کے علاوہ ملکی نظام و انصرام چلانے کی اہلیت و اپوزیشن سے لاکھ اختلا ف کے باوجود مشترکہ معاملات پر مشاورتی عمل کو اہمیت دینا، جمہوری اقدار کی حقیقی روح کو فروغ دے سکتا ہے، گو کہ موجودہ جمہوری نظام پر کئی طبقات کے تحفظات کے باوجود، اس عبوری دور میں شوریٰ کا مناسب پلیٹ فارم قرار دیا جاسکتا ہے اگر عوام کی حقیقی نمائندگی ہو، نیز اہل و خصوصی شعبوں میں ماہر شخصیات سیاسی و مذہبی جماعتوں کی ترجیح ہوں۔

اظہار رائے کا عمل ہر سیاسی جماعت میں مقدم ہونا چاہے، سیاست کی نرسریوں کی آبیاری کے لئے برداشت اور مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کے رواج کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سیاسی شخصیات چاہیے ان کا تجربہ چار دہائیاں ہوں یا چار برس، انہیں اپنے بیانیہ میں اعتدال پسندی کی راہ اپنانا ہوگی، ریاستی اداروں پر بلا جواز تنقید یا بے سبب لب کشائی اخلاقیات کے منافی تصور کیا جائے تو یہ سب کے حق میں بہتر ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).