گلگت بلتستان سے جڑی حساسیت


حساس نوعیت کے معاملات کی حساسیت کو بالاۓ طاق رکھتے ہوئے صرف اپنے وقتی سیاسی مفادات کی غرض سے ان کا استعمال کر ڈالنا حدر جے نامناسب اور غیر ذمہ دارانہ فعل ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے گلگت بلتستان سے جڑے حالیہ واقعات اور بحث میں اسی قسم کا رویہ اپنایا گیا ہے بریفنگ لینا یا بريفنگ  دینا اور اس کو صیغہ راز میں رکھنا اہم نوعیت کے قومی مفادات کے معاملات  میں ایک عمومی رویہ ہوتا ہے مگر اس کے ذریعے کسی کو مطعون کرنے کے رویے نے مستقبل میں اس نوعیت کے معاملات پر بھی اپنی رائے دینے  سے اجتناب کرنے  پر افراد کو مجبور کردینا ہے ۔
بہرحال سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت اس موضوع کو  کیوں چھیڑا گیا ہے اس بات کی اہمیت سے ہرگز انکار ممکن نہیں ہے کہ پاکستان میں بسنے والے اور پاکستان کے زیر انتظام تمام علاقوں کے شہریوں کو مکمل آئینی حقوق حاصل ہونے چاہیے لیکن بھارت کے  مقبوضہ کشمیر میں اختیار کئے گئے رویے کے جواب میں کیا یہ ایک درست رد عمل ہوگا  جو ردعمل دینے کا ذکر کیا جا رہا ہے؟
بھارت نے کشمیر کی حقیقی قیادت کو کسی بھی فیصلے میں کبھی بھی شامل نہیں کیا اور اس کا رویہ 370 کو ختم کرتے وقت بھی یہی تھا مگر جب گلگت بلتستان کے حوالے سے اتنے حساس اقدام پر بات کی جارہی تھی تو کیا اس وقت گلگت بلتستان کی نمائندگی وہاں پر موجود تھی بدقسمتی سے اس کا جواب نفی میں آتا ہے اس وقت وہاں پر ایک نگران حکومت موجود ہے کہ جس کے حوالے سے ہزار سوال اٹھائے جا چکے ہیں لہذا وہ تو یہ استحقاق نہیں رکھتی کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے کسی پالیسی ساز اجلاس میں آ کر اپنی آرا  کو پیش کریں مگر  اس سے قبل موجود دو تہائی اکثریت کی حامل منتخب حکومت کے سربراہ کو تو اس حوالے سے ہر لمحہ آگاہ رکھنا چاہیے تھا۔
ان کی رائے تو سب پر مقدم ہونی چاہیے کہ جس علاقے کے حوالے سے یہ فیصلے کیے جا رہے ہیں وہ اس علاقے کے عوام کی اکثریت کی حمایت رکھتی  ہے مگرایسا نہیں ہوا اور موجودہ کرتا دھرتا  افراد سے اس کی امید بھی موجود نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سے پاکستان میں تبدیلی آئی ہے اس وقت سے ہی گلگت بلتستان کی حکومت کے ساتھ رویہ نامناسب ہو گیا تھا گلگت بلتستان کے وزیر اعلی حافظ حفیظ الرحمن اس سب کے باوجود کے ان کو وفاقی حکومت کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا خاموش رہیں اور اپنے کام میں مگن رہے مگر قبل اس کے کہ وہ اپنے ذمے لگے پانچ سالہ دور حکومت میں ایک ایک دن اپنے پروگرام  پر عمل پیرا ہوتے اچانک الیکشن کمیشن نے ان کی حکومت کے تمام اختیارات سلب کر لئے۔
حکومتی مدت کے اختتام سے قبل ایسے اقدام پر گلگت بلتستان کی عوام بھی دم بخود رہ گئی کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ انتخابی شیڈول کا اعلان ہوا ہی نہیں اور حکومت کو اس کے کارہائے منصبی سے روک دیا جائے مگر ایسا کر دیا گیا اب ایسا کرنے کی واحد وجہ یہ خوف یا احساس ہے کہ ماضی میں جتنا کچھ  گلگت بلتستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے کیا گیا اس سے زیادہ گزشتہ 5 سال کی حافظ حفیظ الرحمن کی حکومت نے کردیا گزشتہ چالیس برسوں سے گلگت بلتستان کا سب سے بڑا مسئلہ فرقہ وارانہ نفرت اور اس کی بنیاد پر قتل و غارت گری بنا ہوا تھا جو کسی صورت تھم  ہی نہیں رہا تھا  ۔
حافظ حفیظ الرحمان کے سگے  بھائی سیف الرحمان بہت متحرک  سیاسی شخصیت تھے جب انہوں نے دیکھا کہ فرقہ وارانہ آگ تو گلگت بلتستان کی وادی کو نگل جائے گی تو اس کے خلاف پوری جرات کے ساتھ میدان عمل میں نکل آئے فرقہ پرست گھبرا گۓ اور سیف الرحمان کو اسی جرم میں کہ وہ  کلمہ گو کو ایک دوسرے کے گلے کاٹتے نہیں دیکھ سکتا تھا مارچ 2003 میں شہید کردیا گیا ۔اس واقعے کے جو اثرات کسی بھائی پر مرتب ہوسکتے تھے وہ حافظ حفیظ رحمٰن پر بھی ہوگئے ۔
حکومت میں آنے کے ساتھ ہی انہوں نے فرقہ وارانہ آگ کو سیاسی طور پر بجھانے کے ساتھ ساتھ انتظامی طاقت کا بھرپور استعمال کرنا شروع کر دیا  سی ٹی ڈی( محکمہ براۓ انسداد دہشت گردی ) کا محکمہ قائم کیا گیا نیت نیک ہو تو منزل مل ہی جاتی ہے گزشتہ پانچ سال میں وہاں ماضی کے چالیس سالوں کی نسبت سب سے کم بلکہ نہ ہونے کے برابر فرقہ وارانہ واقعات پیش آئے ۔جب اسی دوران امن و امان کی صورتحال بحال ہوئی تو وہ سیاح جو اس قدرت کے حسین ترین علاقے کی سیاحت کے متمنی تھے دوبارہ علاقے میں آنے لگے جن کی تعداد لاکھوں میں پہنچ گئی ۔
اس کو  دیکھتے ہوئے پاکستان میں پہلی دفعہ ٹورازم پولیس قائم کی گئی تاکہ عمومی جرائم سی بھی سیاحوں کو محفوظ رکھا جا سکے اور اس میں کامیابی بھی ہوئی۔ قارئین کے لیے یہ بات دلچسپ ہو گئی کہ لاہور اور گلگت میں سیف سٹی پروجیکٹ ایک ساتھ  شروع ہوئے ۔ گلگت کے علاوہ وہاں کے دیگر اضلاع کے لئے بھی سیف سٹی پروجیکٹ منظور شدہ ہے اس کے لیے رقم فراہم کی گئی ہے مگر وفاقی حکومت کی وجہ سے ابھی تک وہاں پر کام شروع نہیں ہو سکا ہے ۔
صحت کے شعبے میں گلگت بلتستان کا پہلا کینسر ہسپتال بنایا گیا پہلا کارڈیالوجی ہسپتال قائم ہوا تین سو بستر  کا شہید سیف الرحمان ہسپتال بنا اس سے قبل وہاں پر صرف پورے گلگت بلتستان میں 170 ڈاکٹر تھی مگر اب ان کی تعداد ساڑھے پانچ سو سے بڑھ چکی ہے ۔ سرکاری ہسپتالوں میں 380 بستر تھے  جو کہ اب چوبیس سو بستر ہو چکے ہیں ۔ پورے علاقے میں ایک بھی سرکاری وینٹیلیٹر یا آئی سی  یو موجود نہیں تھا مگر اب ساٹھ وینٹیلیٹر سرکاری سطح پر موجود ہے جبکہ آئی سی یو بھی کام کر رہے ہیں جنہوں نے کرونا میں بے  پناہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
آزادی سے لے کر حافظ حفیظ الرحمان حکومت آنے تک 28 کالج تھے  مگر گزشتہ صرف پانچ سالوں میں مزید پنتالیس کالج قائم کیے گئے ایک یونیورسٹی تھی اب دو یونیورسٹیاں ہیں ۔اس کے علاوہ ایک کیڈٹ  کالج تھا جو نواز شریف حکومت کے دور میں قائم ہوا تھا اب دوسرا کیڈٹ کالج بھی مسلم لیگ نون کی حکومت کے دور میں ہی قائم ہوا ہے ۔ گلگت سکردو روڈ کا منصوبہ 34 ارب روپے کا ہے 80 فیصد سے زیادہ کام ہو چکا ہے اور اب گلگت سکردو کا فاصلہ جو نو گھنٹوں پر مشتمل تھا صرف تین گھنٹے رہ جائے گا ایسی متحرک حکومت کے سربراہ  کو گلگت بلتستان کے حوالے سے اقدامات پر اعتماد میں نہ لینا ان کی سفارشات نہ  سننا ایک  غیر معمولی ردعمل اور احساس ناگواری قائم کرے گا ۔
ابتدا میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ اب ایسا کیوں کیا جا رہا ہے اور انتظار کیوں نہیں کیا جا رہا ہے کہ یہاں پر نئی منتخب حکومت قائم ہو جائے تو اس کا جواب سادہ ہے کہ یہ نعرہ لگا کر وہاں کے انتخابی منظر نامے میں اپنی جگہ بنانے کی غرض سے وفاقی حکومت یہ معاملہ اٹھا رہی ہے تاکہ ترقیاتی کاموں کے مقابلے میں اس نعرے کو استعمال کیا جا سکے ۔ اگر اس کے علاوہ اس کی فرمائش ہمارا کوئی دوست ملک بھی کر رہا ہے تو ہمیں تمام برادرانہ جذبات کی باوجود اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ اس وقت ایسا کچھ کر کے ہم کہیں بھارت کی صف میں تو کھڑے نہیں ہو جائے گیں ؟
اس وقت  اپنے دوست سے اس پر معذرت کرلینی چاہیے ۔کشمیری قیادت کو بھی اس وقت اس پر تحفظات ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا  آئینی حقوق سے محروم رکھا جائے ہرگز نہیں لیکن کوئی قدم اٹھانے سے قبل وہاں پر آزادانہ اور شفاف انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو جانا چاہیے اس کے بعد کشمیری اور گلگت بلتستان کی قیادت کے ساتھ مل بیٹھ کر ان کی رضامندی اور خواھشات کے مطابق اس معاملے کو حل کرلینا چاہیے یے۔ ابھی کیے گئے  کسی بھی اقدام کا صرف ایک ہی مطلب لیا جاۓ گا کہ فیصلہ سازی میں گلگت بلتستان کی  عوام شامل نہیں ہے ۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).