سائنس کی دنیا سے ۔ 14 سے 20 ستمبر


1۔ یونیورسٹی آف پٹسبرگ کے سائنس دانوں نے اب تک کا سب سے چھوٹا حیاتیاتی سالمہ دریافت کیا ہے جو کرونا وائرس کو مکمل طور پر نیوٹرلائز کر سکتا ہے۔ مکمل اینٹی باڈی سے سائز میں دس گنا کم اینٹی باڈی کا یہ حصہ کرونا وائرس کے علاج اور بچاؤ کے لیے Ab 8 نامی تجرباتی دوا کی تیاری میں استعمال کیا گیا۔ جریدہ سیل میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق یہ نئی دوا چوہوں میں کرونا وائرس سے بچاؤ اور علاج میں بہت مفید ثابت ہوئی۔

اپنے چھوٹے سائز کی وجہ سے یہ نہ صرف انسانی خلیوں میں موجود وائرس کو آسانی سے نیوٹرلایز کر سکتی ہے بلکہ اس کو انہیلر کے ذریعے بھی دیا جاسکتا ہے۔ چونکہ یہ دوا صرف وائرس پر اثر کرتی ہے اس لیے اس کے مضر اثرات بھی نہیں ہوں گے۔ بنیادی طور پر خون میں پائے جانے والی اینٹی باڈیز کا یہ چھوٹا سا حصہ تقریباً سو ارب امیدوار کمپاؤنڈز میں سے اس وقت منتخب ہوا جب یہ کورونا وائرس کے سپائیک پروٹین سے پوری طرح جڑنے میں کامیاب ہوا۔

2۔ شمالی سعودی عرب کے صحرائے نفید میں ایک لاکھ بیس ہزار سال پرانے انسانوں اور جانوروں کے پاؤں کے نشانات ملے ہیں جو ہمارے آبا و اجداد کی افریقہ سے ہجرت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ آج جزیرہ نما عرب بے آب و گیاہ وسیع و عریض ریگزاروں سے جانا جاتا ہے لیکن اس زمانے میں یہ افریقہ کی طرح سرسبز چراگاہؤں کا علاقہ تھا۔ سائنس ایڈوانسز میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق قدموں کے یہ نشانات ایک قدیم جھیل میں دریافت ہوئے۔ ان نشانات کے علاوہ جانوروں کے تقریباً 233 رکاز بھی دریافت ہوئے۔ اس سے پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ ابتدائی انسان نے افریقہ سے جنوبی یونان کے راستے یوریشیا کی طرف ہجرت کی تاہم محققین کے مطابق دریاؤں اور جھیلوں کے ساتھ موجود اور زمینی راستے جیسے کہ جزیرہ نما عرب بھی اس ہجرت میں استعمال ہوئے۔

3۔ ایک دلچسپ تحقیق نے ظاہر کیا کہ ڈراونی فلموں کے شوقین افراد کورونا وائرس کی موجودہ وبا میں نفسیاتی طور پر زیادہ مضبوط ثابت ہوئے۔ تحقیق کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ خوف زدہ کرنے والے مجازی مظاہر حقیقی زندگی میں انسانوں کو خوف سے لڑنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

4۔ آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک درخت سے حاصل کردہ زہریلا کیمیائی مادہ مکڑیوں اور بچھوؤں کے زہر سے ملتا جلتا ہے۔ جمپی۔ جمپی نامی یہ درخت دنیا کے سب سے زہریلے پودوں میں شمار ہوتا ہے جس کے شکار کو شدید درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس نئی طرح کے زہریلے مادے کو درخت کی مناسبت سے جمپی ٹائیڈ کا نام دیا گیا ہے۔

دوسرے زہریلے درختوں کی طرح یہ درخت بھی سوئی نما ٹرائی کومز سے بھرا ہوتا ہے جو سرنج کی سوئی کی طرح اپنے شکار کی جلد میں پیوست ہوکر زہریلے مادے انجیکٹ کرتے ہیں۔ تاہم دوسرے درختوں کے ٹرائی کومز میں عام طور پر ہسٹامین، ایسٹیل کولین اور فارمک ایسڈ نامی مادے پائے جاتے ہیں جب کہ اس درخت میں ایک بالکل نئی طرح کے مکڑیوں اور بچھوؤں کے زہر سے ملتے جلتے اعصاب کو متاثر کرنے والے پروٹین پائے گئے۔ جہاں سائنس دان اس پروٹین سے نئی درد کش ادویات کی تیاری کے لیے پرامید ہیں وہیں اس امر پر حیران ہیں کہ پودوں اور جانوروں میں بالکل ایک جیسا پروٹین کیسے پایا جا سکتا ہے۔ اندازہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ارتقاء کے عمل کے دوران یہ جین پودوں اور جانوروں کے مشترکہ اجداد سے منتقل ہوا ہوگا۔

5۔ نئی تحقیق نے ظاہر کیا ہے کہ وایئکنگ نسل کے بجائے ایک پیشہ تھا۔ اسٹونیا کے ایک ویران ساحل پر تعمیری کام کے دوران

دو کشتیوں میں دفن چالیس ڈھانچے

دریافت ہوئے۔ 750 عیسوی میں دفن شدہ ان ڈھانچوں کے ساتھ وائکنگ طرز کے ہتھیار بھی موجود تھے۔ کیمبرج اور کوپن ہیگن کے محققین نے دس سالوں کے دوران سکینڈے نیویا اور یورپ بھر سے وائکنگ زمانے کے ڈھانچوں سے سیمپل جمع کیے۔ اس بڑے جینیاتی مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ سکینڈے نیوین ممالک کے علاوہ یورپ کے دوسرے علاقوں میں بھی وائٹنگ طرز زندگی عام تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).