آذربائیجان، آرمینیا کشیدگی: کیا تیل کے ذخائر پر کنٹرول دونوں ممالک کے مابین تنازع کی اصل وجہ ہے؟


آذربائیجان

آذربائیجان کے دارالحکومت باکو شہر کے وسط میں کھڑی ’شعلے‘ کی شکل سے مشابہت رکھتی تین عمارتیں ’فلیم ٹاورز‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسے قدیم شہر کی تاریخ اور اس کے مزاج کی عکاس ہیں جسے ’شعلوں کی سرزمین‘ بھی کہتے ہیں۔

اس کے پہاڑی علاقوں میں ازخود آگ بھڑک اٹھتی تھی اور یہاں زرتشت دور کے ہیکل آج بھی موجود ہیں جہاں مقدس آگ جلائی جاتی تھی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں آذربائیجان کا نام اور آگ سے اس کی نسبت بھی وہیں سے آئی ہے۔

تاہم ایک خیال یہ ہے کہ باکو میں مخلتف مقامات پر خصوصاً پہاڑی علاقوں میں ازخود بھڑک اٹھنے والی آگ کا موجب اس شہر میں پائے جانے والے تیل اور گیس کے ذخائر ہیں۔ بحر گیلان کے کنارے آباد باکو میں ہمہ وقت چلنے والی تیز ہوائیں اس آگ کو بھڑکاتی رہتی ہیں۔

گذشتہ صدی میں عالمی منڈی میں فروخت ہونے والا آدھے سے زائد تیل باکو سے نکالا جا رہا تھا۔ آج بھی باکو دنیا کی تیل کی کل کھپت کا پانچواں حصہ پیدا کرتا ہے۔ تیل کے پیسے نے باکو اور آذربائیجان کو ترقی اور خوشحالی دی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ناگورنو قرہباخ تنازع: آرمینیا کا ترکی پر لڑاکا طیارہ مار گرانے کا الزام

آذربائیجان اور آرمینیا کہاں واقع ہیں اور اُن کے مابین تنازع کتنا پرانا ہے؟

آذربائیجان، آرمینیا تنازع: ’پاکستان کشمیر پر حمایت کے بدلے ترکی کا احسان چکا رہا ہے؟‘

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سنہ 1990 میں آزاد ہونے والی چھوٹی سی ریاست آذربائیجان نے تیل سے حاصل ہونے والی دولت سے گذشتہ 20 برس میں خوشحالی کی منازل انتہائی تیزی سے طے کی ہیں۔ دورِ حاضر کے باکو میں اس کی جھلک ہر جگہ دکھائی دیتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج کا باکو سنہ 1994 کے باکو سے یکسر مختلف ہے۔ یہ وہ سال ہے جب آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ناگورنو قرہباخ کے علاقے پر چھ سال تک جاری رہنے والی جنگ کا خاتمہ ہوا تھا، تاہم اس خطے پر تنازع اب تک ختم نہیں ہوا ہے۔

آذربائیجان

آذربائیجان میں پانی کی گزرگاہوں میں اکثر تیل کی موجودگی واضح نظر آتی ہے

دونوں ممالک کے درمیان اس پہاڑی علاقے پر جاری تنازع کے باعث کئی جھڑپیں ہو چکی ہیں جبکہ سنہ 2016 میں ایک چار روزہ بڑی جنگ بھی ہوئی تھی جس میں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اب ایک مرتبہ پھر آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ چھڑ گئی ہے اور دونوں اطراف جانی اور مالی نقصانات کی اطلاعات ہیں۔ ناگورنو قرہباخ کا علاقہ آخر اتنا اہم کیوں ہے؟ کیا حالیہ جنگ کے پیچھے تیل اور گیس کے ذخائر کا حصول مقصد ہو سکتا ہے؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ تیل کے پیسے سے حاصل ہونے والی دولت اور طاقت نے آذربائیجان کی حوصلہ افزائی کی ہو اور وہ ان علاقوں کو آزاد کروانا چاہتا ہو جو آرمینیا نے سنہ 1994 میں قبضے میں لے لیے تھے؟

ناگورنو قارہباخ کا تیل سے کیا تعلق ہے؟

بحرِ گیلان میں موجود بیش بہا تیل اور گیس کے ذخائر کو اس علاقے کے ممالک یورپ کو برآمد کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے دو راستے ہیں۔ ایک شمال مغربی روس اور دوسرا جنوب مغربی راستہ قفقاز یا کاکیشیائی ریاستوں سے گزرتا ہے۔

یورپ روس کے بجائے اس راستے کو ترجیح دیتا ہے اور اس سے گزرنے والی دو پائپ لائنیں اس کے لیے اہمیت کی حامل ہیں۔ یورپ اپنی گیس کی ضروریات کو یہاں سے پورا کرنے کے لیے مستقبل میں یہاں سے مزید پائپ لائنوں کی تعمیر کا خواہشمند ہے۔

سیاسیات کے ماہر اور تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے مطابق ناگورنو قارہباخ سے بھی چند پائپ لائنیں گزرتی ہیں تاہم یہ پہاڑی علاقہ خود گیس یا تیل کی پیداوار نہیں کرتا۔ ’اس علاقے میں کشیدگی عالمی منڈی اور خصوصاً یورپ کو گیس اور تیل کی ترسیل پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔‘

نقشہ

کیا تیل کے ذخائر جنگ کا موجب ہو سکتا ہے؟

ایک عالمی جریدے کونسل آن فارن ریلیشنز کے مطابق آذربائیجان روزانہ آٹھ لاکھ بیرل تیل کی پیداوار کرتا ہے اور یورپ اور وسطی ایشیا کو تیل برآمد کرنے والا بڑا ملک ہے۔ کشیدگی میں اضافے کے نتیجے میں آذربائیجان پائپ لائنوں کو ہونے والے ممکنہ نقصان سے بچنے کے لیے انھیں بند کر سکتا ہے۔

ریڈیو فری یورپ ریڈیو لبرٹی کے مطابق ایسی صورت میں یورپ کو تیل کی ترسیل پر فوری اثر پڑ سکتا ہے۔ باکو سے ترکی کے علاقے سیہان کے درمیان پائپ لائن ایک کروڑ بیرل تیل روزانہ ترسیل کرتی ہے جس کا بڑا حصہ یورپ اور کچھ اسرائیل جاتا ہے۔

تاہم تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ تیل اور گیس کے ذخائر براہِ راست ناگورنو قارہباخ تنازع پر جنگ کا موجب نہیں ہیں۔

تو معاملہ ہے کیا؟

تجزیہ نگار ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے مطابق آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان لڑائی کی وجہ ناگورنو قارہباخ پر کنٹرول اور آذربائیجان کے علاقوں پر مقامی آرمینی آبادی کا قبضہ ہے۔

’ناگورنو قارہباخ بنیادی طور پر آذربائیجان کی سرحد کے اندر ایک واقع ایک انکلیو ہے لیکن یہاں پر آبادی کی اکثریت آرمینی ہے جو کہ آرمینیا کے ساتھ جانا چاہتی ہے۔ تاہم عالمی سطح پر اس علاقے کو آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔‘

سنہ 1988 سے 1994 تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران آرمینیا کی مدد سے ناگورنو قارہباخ کے مقامی آرمینی جنگوؤں نے آذربائیجان کی زمین کے سات علاقوں پر بھی قبصہ کر لیا تھا۔ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان سنہ 1994 میں جنگ بندی تو ہو گئی تاہم کوئی امن معاہدہ طے نہیں پایا۔

اس طرح آذربائیجان کے وہ سات علاقے آج بھی ناگورنو قارہباخ کی مقامی آرمینی آبادی کے قبضے میں ہیں۔ آذربائیجان ایک عرصے سے ان کی بازیابی کی کوششیں کرتا رہا ہے تاہم ان میں کامیابی نہیں ہوئی۔ ایسی ایک کوشش سنہ 2016 میں بھی کی گئی تھی جس میں آذربائیجان کچھ علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب بھی ہو گیا تھا۔

آرمینیا

آرمینیا نے آذربائیجان پر فضائی اور توپ خانوں سے حملوں کا الزام لگاتے ہوئے آذربائیجان کے ہیلی کاپٹر گرانے اور ٹینک تباہ کرنے کی اطلاعات دی ہیں

آذربائیجان کتنی طاقت مجتمع کر چکا ہے؟

باکو کی تیل کی دولت سے حاصل ہونے والی طاقت کو دیکھتے ہوئے ایک خیال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ شاید آذربائیجان اتنی فوجی طاقت مجتمع کر چکا ہے کہ وہ اپنے علاقوں پر سے قبضہ چھڑوانے کے لیے بڑی جنگ کے لیے تیار ہے۔

گو کہ دونوں ممالک کی طرف سے حالیہ کشیدگی کے دوران اس نوعیت کے اعلانات بھی کیے گئے ہیں تاہم تجزیہ کار رسول بخش رئیس کے مطابق ’دونوں چھوٹے ممالک ہیں، دونوں کی فوجیں زیادہ بڑی نہیں ہیں اور دونوں زیادہ لمبی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ معاشی استحکام کے لیے تیل پر انحصار کرنے والے دیگر ممالک کی طرح آذربائیجان بھی عالمی منڈی میں تیل کی قدر میں کمی کی وجہ سے پریشان ہے اور اس کی معیشت دباؤ کا شکار ہے۔

’ابھی یہ نہیں معلوم کی حالیہ کشیدگی یا جنگ کی شروعات کس نے کی، تاہم اس بات کے امکانات کم ہیں کہ آذربائیجان تیل سے حاصل ہونے والے معاشی استحکام اور ترقی سے حوصلہ لے کر جنگ کے لیے گیا ہو گا۔‘

پاکستان آذربائیجان کے مؤقف کی تائید کیوں کر رہا ہے؟

قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر الہان نیاز کے مطابق پاکستان آذربائیجان کے مؤقف کی تائید کرتا ہے۔

‘اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو پاکستان کے ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں جو کہ خطے میں آذربائیجان کا حامی اور آرمینیا کا بڑا مخالف ہے۔ اور دوسری عالمی سطح پر بھی یہی تسلیم شدہ موقف ہے کہ ناگورنو قارہباخ آذربائیجان کا حصہ ہے۔‘

تاہم ڈاکڑ الہان نیاز کے مطابق وسط ایشیائی ممالک کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی ہمیشہ سیاسی اور معاشی استحکام کر فروغ دینے کی رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ کی وجہ ان ممالک تک رسائی نہیں حاصل کر پایا۔

تاہم پاکستان یہی چاہے گا کہ ان ممالک میں استحکام رہے کیونکہ یہ علاقے خطے میں معاشی استحکام سے جڑے ہیں۔ ان کے خیال میں ‘مؤقف کی حمایت سے زیادہ پاکستان اس تنازع میں آذربائیجان کی زیادہ مدد نہیں کر سکتا اور نہ یہ ممالک ایسا چاہیں گے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp