نواز شریف: العزیزیہ سٹیل ملز مقدمے میں سابق وزیر اعظم کو اشتہاری قرار دینے کا عمل شروع کرنے کا فیصلہ


نواز شریف، العزیزیہ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے سے متعلق کارروائی کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

عدالت نے اس کیس میں آئندہ سماعت پر برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکار راؤ عبدالمنان کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرنے کا حکم دیا ہے۔

راؤ عبدالمنان عدالتی احکامات کی تعمیل کروانے کے لیے لندن میں واقع ایون فیلڈ اپارٹمنٹس گئے تھے جہاں سابق وزیر اعظم نواز شریف رہائش پذیر ہیں۔ اہلکار کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد سابق وزیر اعظم کو اشتہاری قرار دینے کا مرحلہ شروع ہو جائے گا۔

بدھ کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں ان کی ضمانت کی منسوخی سے متعلق دائر کی گئی درخواست کو بھی سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے۔

ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی ضمانت کی منسوخی کی درخواست قومی احتساب بیورو کی طرف سے دائر کی گئی ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ’مجرم کا بیرون ملک چلے جانا پورے نظام کی تضحیک ہے۔‘

جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے بدھ کے روز العزیزیہ سٹیل ملز اور ایون فیلڈ ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر سے استفسار کیا کہ عدالت نے مجرم کے جو ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے ان کی تعمیل میں کیا پیش رفت ہوئی، جس پر ایڈشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کا ایک اہلکار ایون فیلڈ اپارٹمنٹس جہاں پر سابق وزیر اعظم رہائش پذیر ہیں، عدالتی احکامات کی تعمیل کروانے کے لیے گیا لیکن وہاں پر موجود ایک شخص نے عدالتی وارنٹ وصول کرنے سے انکار کر دیا۔

یہ بھی پڑھیے

نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سات برس قید، فلیگ شپ میں بری

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے

صحت اجازت نہیں دیتی کہ علاج چھوڑ کر عدالت کے سامنے پیش ہوں: نواز شریف

اُنھوں نے کہا کہ اس سے قبل میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز کے سیکریٹری نے پاکستانی ہائی کمیشن میں فون کیا تھا اور کہا تھا کہ سابق وزیر اعظم عدالتی وارنٹ وصول کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن پھر ایسا نہیں ہوا۔

بینچ کے سربراہ جسٹس عامر فاروق نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ان عدالتی احکامات کی تعمیل کے لیے دولت مشترکہ یا کاؤنٹی کورٹ سے تعمیل کروانے کے بارے میں کیا پیش رفت ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے حکام نے کامن ویلتھ کے دفتر میں فون کر کے اس بارے میں پوچھا تھا تو اُنھوں نے جواب دیا کہ عدالتی احکامات کی تعمیل کروانا ان کی ذمہ داری نہیں ہے، جس پر بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔

بینچ میں موجود جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے مجرم کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا سابق وزیر اعظم جان بوجھ کر عدالتی احکامات کی تعمیل نہیں کر رہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اس ساری مشق کا مقصد ہے کہ کل کو مجرم واپس آئے تو یہ نہ کہے کہ اسے معلوم نہ تھا۔

عدالت نے نیب کے پراسکیوٹر جہانزیب بھروانہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کہ وہ اس مقدمے میں مرکزی سٹیک ہولڈر ہیں، جبکہ نواز شریف کے وکیل بیان دے چکے کہ انھیں وارنٹ گرفتاری کا علم ہے۔ اس پر نیب کے پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اگر عدالت مطمئن ہے تو نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کرنی چاہیے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہمیں شواہد کے ساتھ خود کو مطمئن کرنا ہے کہ عدالت نے وارنٹس کی تعمیل کے لیے اپنی پوری کوشش کی۔

نیب کے پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ مجرم خود کو جان بوجھ کر چھپا رہا ہے جس پر بینچ کے سربراہ نے حیرانی سے پوچھا کہ کیا مجرم خود کو چھپا رہا ہے؟ اُنھوں نے کہا کہ مجرم پوری قوم سے خطاب کر رہا ہوتا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ملزم کو پتہ ہے کہ وہ سارے سسٹم کو شکست دے کر گیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ملزم وہاں بیٹھ کر پاکستان کے سسٹم پر ہنس رہا ہو گا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف کا بیرون ملک جانا پورے نظام کی تضحیک ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ آئندہ وفاقی حکومت کو بھی خیال رکھنا چاہیے کہ کیسے کسی کو باہر جانے دینا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ جتنی کوشش ایک مجرم کو وارنٹ پہنچانے میں لگ رہی ہے، اس میں کئی سائلین کو ریلیف دیا جاسکتا ہے۔ بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ایک کیس کی وجہ سے باقی کیس التواء کا شکار ہیں۔ ان اپیلوں کی سماعت سات اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔

گذشتہ روز ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو وطن واپس لانے کا اعلان تو کیا ہے تاہم حکومت میں ہی شامل اہم شخصیات کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم کو وطن واپس لانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔

ان شخصیات کا کہنا ہے کہ برطانیہ نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو واپس کرنے سے انکار کر دیا تھا، میاں نواز شریف تو پھر بھی سابق وزیر اعظم ہیں۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرموں کے تبادلوں کا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp