منا کتنا بڑا بے وقوف ہے


سلیکٹر سمجھتے ہیں کہ وہ پس پردہ رہ کر حکومت کر رہے ہیں اور کارکردگی کی ذمہ داری صرف کپتان پر ہے۔ وہ جو مرضی مشکل فیصلے چاہے کپتان سے کروا لیں ساری ٹینشن کپتان کی ہے ان کا اپنا نام خراب نہیں ہو رہا۔ جبکہ عوام کپتان کو ذمہ دار نہیں سمجھتے۔ دوسری طرف کپتان بظاہر ہونقوں کی طرح بیٹھا دہی کھا رہا ہے اور مزے سے حکومت کر رہا ہے۔

نواز شریف سمجھتے ہیں کہ کپتان اپنی خراب حکومت سے خوب گندا ہو رہا ہے اور اس کی حکومت کا ذمہ دار سلیکٹروں کو سمجھ کر عوام اتنے بیزار ہو رہے ہیں کہ اگلی مرتبہ میاں نواز شریف کی حکومت آئی تو وہ سلیکٹروں کو نظر انداز کر کے اپنی مرضی کر سکیں گے۔ اس لئے کپتان کے خلاف کچھ نہ کیا جائے اور چپ کر کے بیٹھ کر اسے اپنی مرضی سے حکومت کرنے دینا ہی بہترین پالیسی ہے۔ دوسری طرف کپتان سکون سے بیٹھ کر دہی کھا رہا ہے اور مزے سے حکومت کر رہا ہے۔

آصف زرداری سمجھتے ہیں کہ کپتان اتنی گندی حکومت کر رہا ہے کہ پوری قوم اس نے ستا ماری ہے۔ جبکہ سندھ حکومت نے جس طرح کرونا وغیرہ کے معاملے کارکردگی دکھائی ہے اور مراد علی شاہ نیک نام ہوئے ہیں اس سے عوام ان کی حمایت کریں گے اور کپتان کی جتنی خراب حکومت ہو گی اگلی بار انہیں اتنے ہی زیادہ ووٹ ملیں گے۔ نیز سلیکٹروں کو بھی سمجھ آ جائے گی کہ ایک زرداری سب پر بھاری، جو عوام سے لے کر سلیکٹروں تک سب کو خوش رکھ سکتا ہے۔ دوسری طرف کپتان سکون سے ایک کونے میں بیٹھ کر دہی کھا رہا ہے۔

مولانا فضل الرحمان سمجھتے ہیں کہ کپتان بھولا بن کر سب کو بے وقوف بنا رہا ہے۔ میاں نواز شریف بھی بے وقوف بن رہے ہیں اور آصف زرداری بھی۔ کپتان سب سے زیادہ فائدے میں ہے۔ لیکن مولانا اکیلے کچھ کر نہیں سکتے۔ وہ بیٹھے جل کڑھ رہے ہیں اور کپتان ایک کونے میں سکون سے بیٹھ کر دہی کھا رہا ہے اور مزے سے حکومت کر رہا ہے۔

عوام ان سب سیاست دانوں کی حمایت یا مخالفت میں ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ دوست دوست نہ رہا اور پیار پیار نہ رہا۔ ہر کوئی کسی ایک لیڈر کی حمایت میں دوسروں کو پسند کرنے والوں سے لڑ مر رہا ہے اور تعلقات میں تلخیاں گھول رہا ہے۔ دوسری طرف کپتان سکون سے بیٹھ کر دہی کھا رہا ہے اور مزے سے حکومت کر رہا ہے۔

خیر یہ سب بڑی سنجیدہ سی باتیں ہیں اور ہمیں سنجیدہ باتیں پسند نہیں۔ ہم تو لطیفے سننا سنانا چاہتے ہیں۔ منے میاں کے لطیفے سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو پورے گاؤں میں سب سے زیادہ بے وقوف مانے جاتے تھے۔

روایت ہے کہ حکیم زمان صاحب عرصے بعد اپنے گاؤں گئے تو حسب معمول حجامت بنوانے نائی کے پاس بھی چلے گئے۔ سب سے بہترین خبریں وہیں ملا کرتی تھیں اور طرح طرح کے انوکھے قصے بھی۔ حکیم صاحب کو دیکھتے ہی حجام کھل اٹھا اور کہنے لگا کہ سرکار آپ بہت اچھے وقت آئے ہیں، آپ کو میں گاؤں کا سب سے زیادہ بے وقوف بچہ دکھاتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے گلی میں کھیلتے بچوں کی طرف منہ کیا اور آواز دی ”منے یہاں آ“ ۔

ایک گول مٹول سا بچہ دوڑا دوڑا آیا۔ حجام نے اس کے سامنے تین سکے رکھے، پانچ روپے کا میلا کچیلا سا سکا، دو روپے کا پرانا سا سکہ اور ایک روپے کا نیا نکور چمکتا ہوا سکہ۔ اس نے کہا منے میں جو سکہ سب سے زیادہ اچھا ہے، وہ لے لے۔ منے میاں نے پانچ منٹ تک غور سے سب سکے دیکھے، طرح طرح کی شکلیں بناتے رہے، خودکلامی کرتے رہے ”یہ سکہ سب سے بڑا ہے پر کتنا گندا ہے، میرے ہاتھ بھی گندے کر دے گا، یہ درمیانہ سکہ کتنا پرانا ہے، بالکل بے کار ہے۔ یہ چھوٹا سکہ سب سے زیادہ کام کا ہے۔ یہ بھی میری طرح منا ہے۔ یہ سب سے زیادہ اچھا ہے۔“ اس نے ایک روپے کا سکہ اٹھایا اور اچھلتا کودتا واپس اپنے ہمجولیوں کی طرف چلا گیا۔

حجام اور دکان میں موجود باقی سب گاہکوں کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا۔ حکیم زمان صاحب کو بھی بہت ہنسی آئی کہ منا کتنا بے وقوف ہے، ظاہری چمک دمک دیکھتا ہے، قدر نہیں دیکھتا۔ خیر حجامت سے فارغ ہو کر وہ واپس پلٹے۔ بچوں کے قریب سے گزرے تو ان کے دل میں آئی کہ منے کو سمجھانا چاہیے تاکہ وہ اپنی بے وقوفی سے اپنا نقصان نہ کرے۔ انہوں نے منے کو بلایا اور کہا ”منے تم ہمیشہ ایک روپے کا سکہ کیوں اٹھاتے ہو، کیا تمہیں عقل نہیں کہ تم پانچ روپے کا سکہ اٹھاؤ گے تو اس کے بدلے تمہیں زیادہ گولیاں ٹافیاں ملیں گی؟“

منے نے غور سے حکیم صاحب کو دیکھا۔ پھر کہنے لگا ”چاچا جی، ایک روپے کا سکہ اتنا اچھا بھی تو ہوتا ہے۔ چمکتا ہوا، لش پش کرتا ہوا“ ۔ حکیم صاحب نے منے کی بے وقوفی پر سر ہلایا اور بولے ”تمہیں عقل کیوں نہیں ہے؟ اتنا بڑا بے وقوف میں نے ساری زندگی نہیں دیکھا۔ تم اگلی مرتبہ ایک روپے کی بجائے سب سے بڑا پانچ روپے کا سکہ اٹھانا اور پھر دیکھنا کتنا مزا کرتے ہو“ ۔

منے نے غور سے حکیم صاحب کی طرف دیکھا اور کہنے لگا ”ایک بار ہی مزے کروں گا نا؟ جیسے ہی پانچ روپے کا سکہ اٹھایا، کھیل ختم ہو جائے گا۔ ابھی تو سارے محلے والے دن میں دس مرتبہ بلا کر ایک ایک روپیہ دے دیتے ہیں۔ میں نے پانچ کا سکہ اٹھا لیا پھر ہمیشہ کے لیے کھیل ختم پیسہ ہضم“ ۔
حکیم صاحب ہونقوں کی طرف منے کو دیکھتے رہے اور سوچتے رہے کہ سب سے بڑا بے وقوف منا ہے یا اسے الو سمجھنے والے؟

بس معاملہ یہی ہے صاحبو۔ جب تک لوگ منے کو سب سے بڑا بے وقوف سمجھتے رہیں گے، وہ سب کو اجتماعی طور پر بے وقوف بناتا رہے گا اور ایک کونے میں سکون سے بیٹھ کر دہی کھاتا اور حکومت کرتا رہے گا۔ جس دن اس نے بتا دیا کہ بے وقوف کون ہے، اس دن اس کی حکومت نہیں رہے گی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar