گاؤں کی ”بھا آلی کوٹھی“ کی مونجھ میں ایک اظہاریہ


”بھا آلی کوٹھی“ عہد گم گشتہ میں ہمارے گاؤں والے گھر میں دریائی مٹی سے لیپے ہوئے، کچی دیواروں اور گھاس پھوس کی چھت پر مبنی ”کچن“ کا ”سوکھا“ یعنی کہ آسان نام تھا۔ ”بھا آلی کوٹھی“ کے درمیان میں مٹی کی لپائی سے ہی ایک چولہا بنا ہوا تھا جس کے آگے دو یا تین مربع فٹ کا احاطہ موجود تھا جس میں موٹی موٹی لکڑیاں دکھتی رہتیں۔ ان گیلی اور کڑوی کسیلی لکڑیوں سے کالے کالے دھویں جیسا غبار ہر وقت اٹھتا رہتا۔ ”بھا آلی کوٹھی“ میں آگ جلانے کے لئے صرف لکڑیوں کا ہی استعمال نہیں ہوتا تھا بلکہ بالن کا ایک اور بڑا اہم اور فوری ذریعہ اپلے بھی ہوتے۔

جاڑے کے گلابی دنوں میں ”بھا آلی کوٹھی“ کی رونقیں دوبالا ہو جاتی۔ تڑکے کو نور حضور کے ویلے جب ہماری آنکھ کھلتی تو وڈی اماں اپنی چارپائی پر موجود نہ ہوتی۔ وہ اس وقت ”بھا آلی کوٹھی“ میں چائے وغیرہ بنانے کے لئے آگ جلانے کے بعد کھجور کے پتوں سے بنے مصلے پر فجر کی نماز ادا کر رہی ہوتیں۔ آگ پر چائے کی دیگچی چڑھی ہوتی جس میں پتی، چینی اور دودھ نماز ادا کر کے ڈالا کرتیں۔ تب تک پانی اچھا خاصا کھولنے لگتا۔

صبح کا اجالا پھیلتا تو آہستہ آہستہ سارے بہن بھائی چولہے کے دونوں اطراف بچھی چٹائیوں پر بیٹھتے جاتے۔ اسی دوران چائے تیار ہو چکی ہوتی۔ دم کی ہوئی خالص دودھ کی چائے کی خوشبو سے ”بھا آلی کوٹھی“ معطر ہو جاتی۔ چائے کی مخصوص خوشبو اور لپٹن کی مہک ایک خوابیدہ ماحول پیدا کر دیتے۔

”بھا آلی کوٹھی“ کی مغربی دیوار میں ایک محراب دار طاق بنا ہوا تھا جس پر لالٹین دھری رہتی۔ لکڑی اور اپلوں کے دھویں نے لالٹین کے شیشے کو بھی مٹیالا کر دیا تھا جس کی میلی میلی روشنی ”بھا آلی کوٹھی“ کے ماحول کو روشن کرنے کی بجائے مزید اندھیارا اور پراسرار بنا دیتی۔ دھویں کی شدت تو بعض اوقات اتنی بڑھ جاتی کہ سانس لینا بھی محال ہو جاتا اور آنکھوں سے اکثر آنسو رواں رہتے۔

”بھا آلی کوٹھی“ کی مشرقی دیوار میں ایک چھوٹی سی لکڑی کی الماری نصب تھی، اس الماری کے سب سے اوپر والے خانے میں قرآن پاک کا نسخہ، ابو جی کا مرتب کردہ درود شریف کا کتابچہ، اماں کی بڑے ”مڑکوں“ (منکوں ) والی تسبیح اور ان کے پیر و مرشد سید عبدالرزاق صاحب بغداد شریف والے کی فریم جڑی تصویر موجود ہوتی۔ درمیانی خانے میں سرمہ دانی، سرسوں کے خالص تیل کی شیشی، شہد کی بوتل، ابو جی کی تیار کردہ ہاضمے دار پھکی کی بوتل موجود ہوتی جس کو ہم ”تلی“ کہتے۔ جبکہ سب سے نچلے خانے میں روٹیوں والا سندھڑا موجود ہوتا۔ اس الماری کے اندر سے ایسی الوہی اور مسحور کن خوشبو آتی کہ روح تک مبہوت ہو جاتی۔ تین دہائیاں بیت جانے کے باوجود وہ پراسرار خوشبو ابھی تک دل و دماغ میں ہمکتی رہتی ہے۔

پوہ کی یخ بستہ راتوں میں اسی ”بھا آلی کوٹھی“ میں دہکتے انگاروں سے بھرے چولہے کے ساتھ بچھی چٹائی پر بیٹھ کر ہم مصالحہ کوٹنے والی ”دووری“ (ہاون/اوکھلی) کو الٹا کر کے اس پر لالٹین رکھ لیتے اور اس کی پوتر روشنی میں استاد کا آموختہ دہراتے، کاپیوں پر سکول کی تفویض کار لکھتے۔

آج ”سوشل میڈیا“ کے چوپال میں کھوکھلے وجود کے روگ اور بانجھ بنجر روح کے بھوگ کے ساتھ سمارٹ موبائل فون کی ٹچ سکرین پر ”انگشت زنی“ کرتے ہوئے ماضی کی باس دل و دماغ پر ایک عجب سحر طاری کر رہی ہے جو الفاظ میں بیان کرنا محال ہے۔ زیست کے 27، 28 سال پلک جھپکتے ہی اڑن چھو ہو گئے۔ ۔ ۔

گاؤں کا کچا گھر بہت دور رہ گیا۔ ۔ ۔
وڈی اماں سمیت گھر کے کئی مکینوں نے عدم آباد کو جا آباد کیا۔ ۔ ۔
موسمیاتی تبدیلیوں کا اژدھا پوہ کی یخ بستہ راتوں کو کھا گیا۔ ۔ ۔
”بھا آلی کوٹھی“ کو بے رحم وقت کی منہ زور آندھی نے متروک کر دیا۔ ۔ ۔

دھندلی لالٹین، الماری کی الوہی خوشبو، مونگریاں، پیالے، روٹیاں گرم رکھنے والا سندھڑا، لسی کا مٹکا، گھڑا اور اپلے خواب و خیال بن گئے۔ ۔ ۔

اب تو زندگی کی تپتی دوپہریں ہیں۔ ۔ ۔
جھڑتا سایہ ہے۔ ۔ ۔
سب مایا ہے۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).