موسیؑ کے زمانے میں ایک فرعون تھا


کراچی ہی کا کیا، پورے پاکستان کا عالم یہ ہے کہ کوئی گلی، محلہ یا بازار ایسا نہیں رہ گیا جہاں آپ، آپ کی جان و مال، عزت، آبرو، خواتین، بچے اور بچیاں محفوظ تصور کی جا سکتی ہوں۔ گھر سے باہر تو خطرہ ہے ہی لیکن اگر کسی کے ذہن میں یہ بات ہو کہ گھر کی چار دیواری اس کی پناہ گاہ ہے تو یہ بھی سراسر غلط اور لغو ہے۔ ایسے عالم میں ہر فرد اپنی بہت ساری چیزیں یا تو گھر ہی چھوڑ آنا زیادہ مناسب سمجھتا ہے تا کہ گھر سے باہر نقصان اٹھانا بھی پڑ جائے تو دیگر بہت ساری پریشانیوں سے محفوظ رہ سکے۔

اپنی موٹر سائیکل یا کار نکالتے ہوئے اصل کاغذات کا ساتھ رکھنا ایسا ہی ہے جیسے کاغذات سمیت گھر کی ساری چابیاں کسی کے حوالے کر دینا۔ کسی بھی قسم کی چھوٹی بڑی گاڑی اگر مع اصل کاغذات چھین لی جائے تو پھر اس پر اپنا ہونے کا دعویٰ باطل ہی قرار پاتا ہے۔

قومی شناختی کارڈ، کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ بے شک دوبارہ بن جایا کرتے ہیں لیکن تمام مصروفیات ترک کر کے نہ صرف ان کی ایف آئی آر کٹوانا پڑتی ہے بلکہ کئی کئی دن ان کے حصول میں صرف ہو جاتے ہیں جو ایک الگ درد سری ہے۔

سڑکوں، سڑکوں کے اہم چوراہوں اور گلی کے نکڑوں پر موجود ٹریفک پولیس اہلکاروں نے اگر آپ کو روک لیا اور مذکورہ کاغذات طلب کر لیے تو سمجھ لیں اس کا ”چائے پانی“ پکا اور اگر اندرونی کرب کی وجہ سے آپ کی آواز بلند ہو گئی تو پھر جان و مال سمیت آپ کی اپنی کوئی بھی شے اپنی کہلانے کے لائق رہ جائے تو اسے معجزہ ہی سمجھا جائے۔

اسکولوں اور مدرسوں کا عالم بھی بہت مختلف تو نہیں۔ اگر مار بیٹھیں تو حلق سے کراہ بلند ہونے کا مطلب جان سے جانا بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بات ہر طالب علم کے مشاہدے میں کئی بار آچکی ہوتی ہے۔ عالم طور سے جان سے جانے والے یا ہسپتال میں تمام عمر ہڈیاں، پسلیاں اور چمڑیاں جڑوانے اور سلواتے رہنے والے طالب علم وہ ہوتے ہیں جو ان مشاہدوں یا تجربوں سے گزرے ہوئے نہیں ہوتے۔

شہر میں چلنے والی جو سواریاں بھی ہیں اگر ان سے کرایہ کے معاملے میں کوئی الجھ جائے تو پھر خود اس کے اپنے سلجھ جانے میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔

آپ پیدل ہوں یا اپنی کسی بھی قسم کی سواری پر، قزاقوں نے اگر روک لیا تو اپنی نگاہیں نیچی کر لیں، گردن سینے پر جھکا لیں، جسم کو بالکل اس طرح ڈھیلا چھوڑ دیں جیسے انجکشن لگاتے وقت ڈاکٹر کی ہدایت کے وقت آپ اپنے بازو کو ڈھیلا چھوڑ دیا کرتے ہیں۔ اگر ذرہ برا بر بھی اس کے بر خلاف ہوا تو آپ بہت ہی خوش قسمت ہوں گے اگر آپ کی آنکھ سول یا جناح ہسپتال میں کھلے ورنہ قبر میں فرشتے ہی آپ کو خوش آمدید کہتے نظر آئیں گے۔

قانون نافذ کرنے والی اگر کسی ایسی ایجنسی کے ہاتھ لگ گئے جن کے اہلکار اگر دیکھ بھی لئے جائیں تو دیکھنے والوں کو کبھی دکھائی ہی نہیں دیا کرتے تو پھر آپ وہی کچھ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں جو ان کی مرضی و منشا ہو۔ چور ہیں، یس۔ فلاں فلاں کو قتل کیا ہے، یس۔ نام اور پتے معلوم ہیں ہیں، معذرت۔ فہرست سامنے کردی گئی کہ ان میں سے کون کون ہیں۔ زیادہ خوش کرنے کے لئے سب کے ناموں کے آگے دستخط کر دیجئے اور ساتھ ہی ساتھ ہر ایک کی پوری تفصیل نام بنام رٹ لیجیے اس طرح بے شک آپ زندگی بھر گھر والوں کی شکل تو شاید نہ دیکھ سکیں البتہ اپنی پوری طبعی عمر تک ضرور پہنچ جائیں گے بصورت دیگر آپ کا جسد خاکی کسی جھاڑی، ندی، نالے یا کوڑے دان میں پڑا کسی نہ کسی کی نظروں میں ضرور آ جائے گا۔

گوشت لیتے ہوئے قصائی جہاں جہاں سے بھی گوشت کاٹ کاٹ کر ترازو میں رکھ رہا ہے اس پر لبوں کو سی کر ہی رکھیے اور اگر کچھ کہنا ہے تو آٹھ دس فٹ دور ہونے کے بعد کہیے ورنہ قصائی کے چھرے نشتر سے بھی کہیں زیادہ تیز دھار والے ہوتے ہیں۔

سبزی یا پھل فروشوں سے ریٹ کی انکوائری کرنے سے گریز کریں اور پھل خریدنے کے بعد اس کے سامنے جو بھی بڑے سے بڑا نوٹ ہو، بڑھا دیں۔ اب وہ زمانہ گیا جب سو روپے کا نوٹ دیکھ کر وہ آپ سے کھلے پیسوں کا مطالبہ کیا کرتا تھا۔ جتنے پیسے آپ کو واپس مل جائیں اس پر شکر کریں ورنہ گھر میں سبزیاں پکانا اور کبھی کبھی پھل کھانا مشکل سے مشکل تر بھی ہو سکتا ہے۔

پبلک ڈیلنگ محکموں میں سوال کر لینا اتنا ہی برا ہے جتنا برا کسی سوالی کا آپ کے در پر آکر کچھ مانگ لینا۔ جس زمانے میں ٹی وی لائسنس بنا کرتا تھا، فیلڈ نوکری کے وجہ سے ایک ماہ لیٹ ہو گیا۔ گھر آنے پر شریک حیات نے چالان سامنے کر دیا جو گھر گھر چھاپے کی صورت میں محکمے والے مدت پوری ہوجانے پر نیا نہ بنوانے کے جرم میں پکڑا گئے تھے۔ میں اور شریک حیات کمشنر آفس پہنچے۔ چالان 500 روپے کا کاٹا تھا جو ایک سال کی فیس کے برابر تھا۔ چالان پیش کرتے ہوئے میں نے اپنی فیلڈ ڈیوٹی کا عذر پیش ہی کیا تھا کہ اندر بیٹھے مجسٹریٹ کی جانب سے زوردار آواز آئی ایک ہزار۔ مزید بولنے کی سزا کا احساس ہوتے ہی 500 کی بجائے ہزار ادا کرنے پڑ گئے۔

جس ملک میں مجھ سمیت ہر ہر قدم پر فرعون موجود ہوں وہاں ایک دو موسیؑ کیا کر سکتے ہیں اور ہم ہیں کہ موساؤں کے ماسک لگائے ہر پارٹی کے سربراہ کو خدا سمجھے بیٹھے ہیں۔ لگتا ہے کہ اب کوئی تیسری قوم جب تک ہمارے ساتھ دجالوں والا سلوک نہیں کرے گی اس وقت تک ہمارا بگڑا ہوا دماغ درست نہیں ہو سکے گا۔ اللہ ہی جانے یہ خیال میرے دل میں اس قدر گھر کیوں کر چکا ہے لیکن ہم جا تو اسی سمت ہی رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).