بھیڑ بکریاں چرانے والا انقلابی


کہانی کچھ اس انداز سے شروع ہوئی کہ کچھ دن پہلے قلعہ سیف اللہ سے تعلق رکھنے والے ایم فل اسکالر محب شیراز نے اپنے تحقیقاتی مقالہ/ ریسرچ پیپر کو کتابی شکل دینے کے بعد مجھے بھی کتاب کی کاپی دی کتاب کا موضوع اتنا جاندار تھا کہ پڑھنے والوں کو اس موضوع کے متعلق اور بھی پڑھنے کی تلقین کرتا تھا۔

کتاب یا تحقیق کا موضوع سنہ 1978 کو افغانستان میں انقلاب لانے والے ”خلق“ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان کے بانی اور مزدوروں کا یار نور محمد ترکئی ہے جس نے ایک مزدور کے گھر آنکھ کھولی بچپن ہی میں اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کو معاشی طور پر سپورٹ کرنے کے لئے گھروں میں کام کیا اور بعد میں ایسے تاریخی کام کیے کہ آج دنیا اس بڑی سوچ کے مالک کو دنیا بھر کے انقلابیوں کی لسٹ میں نہ صرف شمار کرتی ہے بلکہ فخریہ انداز میں بتاتی ہے کہ کیسے ایک بھیڑ بکریاں چرانے والا چرواہا انقلابی لیڈر بن سکتا ہے۔

محبت شیراز کی اس کتاب میں نور محمد ترکئی کی لکھی ہوئی درجنوں کتابوں کا تفصیلی ذکر ہے خاص کر ان کے لکھے ہوئے ناولز، افسانہ اور سیاست سے متعلق کتابوں کا۔ اس کے ساتھ ساتھ نور محمد ترکئی کے ناولز کو دیکھتے ہوئے خوبصورتی سے بتایا ہے کہ ایک ناول میں کہانی کس انداز سے شروع ہونی چاہیے کہانی کے مرکزی خیال کا کیسے خیال رکھا جائے کہانی کے اندر چھوٹی چھوٹی کہانیوں کو بہتر انداز میں جوڑنا کیوں ضروری ہے کہانی تجسس سے بھری کیوں ہوں کہانی میں تصادم، منظر اور سب سے بڑھ کر ناول کی کہانی کس انداز میں ختم ہونی چاہیے ان سب کے بارے میں ترکئی کے ناولز کو دیکھتے ہوئے آسان الفاظ اور خوبصورتی سے بتایا ہے۔

محبت شیراز کی کتاب پڑھنے کے بعد ایک لمحے کے لئے سوچنے لگا کہ نور محمد ترکئی نے کیسے اپنے ملک میں اپنے چاہنے والوں کی سیاسی اور شعوری تربیت کی اور دوسری طرف ہمارے وزیراعظم عمران خان صاحب جو دنیا کے نمبر ون تعلیمی ادارے آکسفورڈ سے فارغ التحصیل ہے نے اپنے کارکنوں کی کیسے سیاسی تربیت کی اور اس حوالے سے کیا کیا اقدامات اٹھائے؟

آپ سب سوچ رہے ہوں گے کہ کہاں ایک سوشلسٹ انقلابی نور محمد اور کہا کیپٹلسٹ عمران خان جس نے حکومت میں آنے کے لئے ملک کے کونے کونے سے جہانگیر ترین، حلیم خان، فیصل واوڈا اور اعظم سواتی جیسے ارب پتیوں کو ساتھ ملائے رکھا۔

عمران خان اور نور محمد ترکئی کی کہانیاں ہر لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں نظریات، جدوجہد، معاشی اور فیملی بیک گراونڈ، اقتدار میں آنے کا طریقہ کار وغیرہ۔

عمران خان اگر مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہوئے ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں تو ترکئی حقیقی عوامی مسائل اور ان کے حل کے بارے میں بات کرتے تھے عمران خان اپنے مخالف سیاسی لیڈران کو گالی دے کر سیاسی کارکنوں کی تربیت کرتے ہیں وہی نور محمد ترکئی کتابوں، ناولز، افسانہ، عالمی انقلابات کے حوالے دے کر کارکنوں کی تربیت کیا کرتے تھے عمران خان نے اقتدار میں آنے کے لئے اسلام آباد کے ہمسایہ شہر سے مدد لی اور ملکی ارب پتیوں کو ساتھ ملایا لیکن مزدور نور محمد نے عوامی شعور کو استعمال کرتے ہوئے اقتدار حاصل کی اور ملک کے تقریباً ہر ارب کو جیل کی دال کھلائی عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد اپنے ہر وعدے سے پیچھے ہٹ گئے لیکن نور محمد ترکئی نے روایتی معاشرے میں انقلابی اقدامات اٹھاتے ہوئے فرسودہ اور غیر انسانی نام نہاد رواج وغیرہ کو کسی کے پریشر میں آئے بغیر کچرہ نادان میں ڈال دیے۔

مجھے افسوس صرف اس بات پر ہے کہ قوم نے عمران خان کو ضائع کیا اور عمران خان نے عوامی طاقت کو نظر انداز کر کے قوم کے ساتھ نا انصافی کی۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر عمران خان بھی نور محمد کی طرح عوامی شعور سے اقتدار میں آتے اور ترکئی کی طرح تعلیم، خواتین کے حقوق، جاگیرداری نظام کا خاتمہ، زبردستی کا اسلام، غیر انسانی اور فرسودہ روایات کے خاتمے کے لئے کام کرتے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں کیا عمران خان نے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).